الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قادسیہ پہنچ کر سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر طرف ہرکارے دوڑائے کہ غنیم کی خبریں لائیں۔ انہوں نے آ کر بیان کیا کہ رستم (پسر فرخ زاد) جو آرمینیہ کا رئیس ہے سپہ سالار مقرر ہوا ہے۔ اور مدائن سے چل کر ساباط میں ٹھہرا ہے۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دی۔ وہاں سے جواب آیا کہ لڑائی سے پہلے لوگ سفیر بن کر جائیں اور ان کو اسلام کی رغبت دلائیں۔ سعد نے سرداران قبائل میں سے چودہ نامور اشخاص انتخاب کئے جو مختلف صفتوں کے لحاظ سے تمام عرب میں انتخاب تھے۔ عطارد بن حاجب، اشعث بن قیس، حارث بن حسان، عاصم بن عمر، عمرو بن معدی کرب، مغیرہ بن شعبہ، معنی بن حارثہ قد و قامت اور ظاہری رعب و داب کے لحاظ سے تمام عرب میں مشہور تھے۔ نعمان بن مقرن، اسر بن ابی رہم، حملہ بن جوتیہ، منظلہ الربیع التمیمی، فرات بن حیان العجل، عدی بن سہیل، مغیرہ بن زاراہ، عقل و تدبیر اور حزم و سیاست میں اپنا جواب نہیں رکتھے تھے۔ ساسانیوں کا پائے تخت قدیم زمانے میں اصطخر تھا۔ لیکن نوشیروان نے مدائن کو دار السلطنت قرار دیا تھا۔ اسی وقت سے وہی پایہ تخت چلا آتا تھا۔ یہ مقام سعد کی فرودگاہ یعنی قادسیہ سے 30 – 40 میل کے فاصلے پر تھا۔ سفراء گھوڑے اڑاتے ہوئے سیدھے مدائن پہنے۔ راہ میں جدھر سے گزر ہوتا تھا، تماشائیوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آستانہ سلطنت کے قریب پہنچ کر ٹھہرے۔ اگرچہ ان کی ظاہری صورت یہ بھی کہ گھوڑوں پر زین اور ہاتھوں میں ہتھیار تک نہ تھا۔ باہم بیباکی اور دلیری ان کے چہروں سے ٹپکتی تھی اور تماشائیوں پر اس کا اثر پڑتا تھا۔ گھوڑے جو سواری میں تھے رانوں سے نکلے جاتے تھے اور بار بار زمین پر ٹاپ مارتے تھے۔ چنانچہ ٹاپوں کی آواز یزدگرد کے کان تک پہنچی اور اس نے دریافت کیا کہ یہ کیسی آواز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے سفراء آئے ہیں۔ یہ سن کر بڑی ساز و سامان سے دربار سجایا اور سفراء کو طلب کیا۔ یہ لوگ عربی جبے پہنے کاندھوں پر یمنی چادریں ڈالے ، ہاتھوں میں لوڑے لئے موزے چڑھائے دربار میں داخل ہوئے۔ پچھلے معرکوں نے تمام ایران میں عرب کی دھاک بٹھا دی تھی۔ یزد گرد نے سفیروں کو اس شان سے دیکھا تو اس پر ہیبت طاری ہو گئی۔ ایرانی عموماً ہر چیز سے فال لینے کے عادی تھے ، یزدگرد نے پوچھا کہ عربی میں چادر کو کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برد (فارسی کے معنی کے لحاظ سے ) کہاں " جہاں برد" پھر کوڑے کی عربی پوچھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ " سوط" وہ سوخت سمجھا اور بولا کہ " پارس راسوخقند" ان بدفالیوں سے سارا دربار برہم ہوا جاتا تھا۔ لیکن شاہی آداب کے لحاظ سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ پھر سوال کیا کہ تم اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ نعمان بن مقرن جو سرگروہ تھے جواب دینے کے لیے آگے بڑھے ، پہلے مختصر طور پر اسلام کے حالات بیان کئے پھر کہا کہ ہم تمام دنیا کے سامنے دو چیزیں پیش کرتے ہیں۔ جزیہ یا تلوار۔ یزدگرد نے کہا تم کو یاد نہیں کہ تمام دنیا میں تم سے زیادہ ذلیل اور بدبخت کوئی قوم نہ تھی، تم جب کبھی ہم سے سرکشی کرتے تھے تو سرحد کے زمینداروں کو حکم بھیج دیا جاتا تھا اور وہ تمہارا بل نکال دیتے تھے۔