الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلمان ربیعہ الباہلی پیدل جمال بن مالک الاسدی شتر سوار عبد اللہ بن ذی السمین قاضی و خزانچی عبد اللہ بن ربیعہ الباہلی راید یعنی رسد وغیرہ کا بندوبست کرنے والے سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی ہیں۔ فارس کے رہنے والے تھے مترجم ہلال ہجری منشی زیاد بن ابی سفیان طبیب (افسوس ہے کہ طبری نے طبیبوں کے نام نہیں لکھے۔ صرف اسی قدر لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کے ساتھ طبیب بھیجے۔ ) امرائے اعشار میں ستر وہ صحابہ تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے ، تین سو وہ جو بیعت الرضوان میں حاضر تھے۔ اسی قدر وہ بزرگ جو فتح مکہ میں شریک تھے۔ سات سو ایسے تھے جو صحابہ نہ تھے لیکن صحابہ کی اولاد تھے۔ سعد شراف ہی میں تھے کہ دربار خلافت سے ایک اور فرمان آیا جس کا مضمون یہ تھا کہ شراف سے آگے بڑھ کر قادسیہ (کوفہ سے 35 میل پر ایک چھوٹا سا شہر ہے ) میں مقام کرو اور اس طرح مورچے جماؤ کہ سامنے عجم کی زمین اور پشت پر عرب کے پہاڑ ہوں، تاکہ فتح ہو تو جہاں تک چاہو بڑھتے جاؤ اور خدانخواستہ دوسری صورت پیش آئے تو ہٹ کر پہاڑوں کی پناہ میں آ سکو۔ قادسیہ نہایت شاداب، نہروں اور پلوں کی وجہ سے محفوظ مقام تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جاہلیت میں ان مقامات سے اکثر گزرتے تھے۔ اور اس موقع کی ہیئت اور کیفیت سے واقف تھے۔ چنانچہ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو فرمان بھیجا، اس میں قادسیہ کا موقع اور محل بھی مذکور تھا۔ تاہم چونکہ پرانا تجربہ تھا۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ قادسیہ پہنچ کر سر زمین کو پورا نقشہ لکھ بھیجو کیونکہ میں نے بعض ضروری باتیں اسی وجہ سے نہیں لکھیں کہ موقعہ اور مقام کے پورے حالات مجھ کو معلوم نہ تھے۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ نہایت تفصیل سے موقع جنگ کی حدود اور حالات لکھ کر بھیجے۔ دربار خلافت سے روانگی کی اجازت آئی۔ چنانچہ سعد شراف سے چل کر عذیب پہنچے۔ یہاں عجمیوں کا میگزین رہا کرتا تھا جو مفت ہاتھ آیا۔