الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی اثناء میں جوج کو سر و سامان سے آراستہ کر لیا۔ اور پیش قدمی کر کے خود حملے کے لیے بڑھے۔ نمازق پر دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں۔ جاہان کے میمنہ و میسرہ پر جوشن شاہ اور مردان شاہ دو مشہور افسر تھے جو بڑی ثابت قدمی سے لڑے لیکن بالآخر شکست کھائی اور عین معرکہ میں گرفتار ہو گئے۔ مردان شاہ بدقسمتی سے اسی وقت قتل کر دیا گیا۔ لیکن جاہان اس حیلے سے بچ گیا کہ جس شخص نے اس کو گرفتار کیا تھا وہ اس کو پہچانتا نہ تھا۔ جاہان نے اس سے کہا کہ اس بڑھاپے میں کس کام کا ہوں۔ مجھ کو چھوڑ دو اور معاوضے میں مجھ سے دو جوان غلام لے لو۔ اس نے منظور کر لیا۔ بعد لوگوں نے جاہان کو پہچانا تو غل مچایا کہ ہم ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ لیکن ابو عبیدہ نے کہا کہ اسلام میں بد عہدی جائز نہیں۔ ابو عبیدہ نے اس معرکہ کے بعد کسکر کا رخ کیا۔ جہاں نرسی فوج لئے پڑا تھا۔ سقاطیہ میں دونوں فوجیں مقال ہوئیں۔ نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا۔ اور خود کسریٰ کے دو ماموں زاد بھائی ہندویہ اور تیریہ میمنہ اور میسرہ پر تھے۔ تاہم نرسی اس وجہ سے لڑائی میں دیر کر رہا تھا کہ پایہ تخت سے امدادی فوجیں روانہ ہو چکی تھیں۔ ابو عبیدہ کو بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے بڑھ کر جنگ شروع کر دی۔ بہت بڑے معرکے کے بعد نرسی کو شکست فاش ہوئی۔ ابو عبیدہ نے خود مقاطیہ میں مقام کیا۔ اور تھوڑی سی فوجیں ہر طرف بھیج دیں کہ ایرانیوں نے جہاں جہاں پناہ لی ہے ان کو وہاں سے نکال دیں۔ فرخ اور فرلوند جو باروعما اور زوادی کے رئیس تھے ، مطیع ہو گئے ، چنانچہ اظہار خلوص کے لئے ایک دن ابو عبیدہ کو نہایت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کر بھیجے۔ ابو عبیدہ نے دریافت کیا کہ یہ سامان کل فوج کے لئے ہے یا صرف میرے لئے ؟ فرخ نے کہا کہ اس جلدی میں ساری فوج کا اہتمام نہیں ہو سکتا تھا۔ ابو عبیدہ نے دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ مسلمانوں میں ایک دوسرے پر کچھ ترجیح نہیں۔ اس شکست کی خبر سن کر رستم نے مروان شاہ کو جو عرب سے دلی عداوت رکھتا تھا۔ اور جس کو نوشیرواں نے تقدس کے لحاظ سے ہیمن کا خطاب دیا تھا۔ چار ہزار فوج کے ساتھ اس سامان سے روانہ کیا کہ درفش کادیانی جو کئی ہزار برس سے کیانی خاندان کی یادگار چلا آتا تھا۔ اور فتح و ظفر كا دیباچہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے سر پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا، دونوں حریف صف آرا ہوئے۔ چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے کہلا بھیجا کہ یا تم اس پار اتر کو آؤ یا ہم آئیں۔ ابو عبیدہ کے تمام سرداروں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم کو اس طرف رہنا چاہیے۔ لیکن ابو عبیدہ جو شجاعت کے نشے میں سرشار تھے کہا کہ یہ نامردی کی دلیل ہے۔ سرداروں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ جانبازی کے میدان میں مجوسی ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ مروان شاہ جو پیغام لے کر آیا تھا، اس نے کہا کہ ہماری فوج میں عام خیال ہے کہ " عرب مرد میدان نہیں ہیں۔ " اس جملے نے اور بھی اشتعال دلایا۔ اور ابو عبیدہ نے اسی وقت فوج کو کمر بندی کا حکم دے