الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیا۔ مثنی اور سلیط وغیرہ بڑے بڑے افسران فوج اس رائے کے بالکل مخالف تھے اور عظمت و شان میں ان کا رتبہ ابو عبیدہ سے بڑھ کر تھا۔ جب ابو عبیدہ نے اصرار کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ اگرچہ ہم کو قطعی یقین ہے کہ اس رائے پر عمل کرنے سے تمام فوج غارت ہو جائے گی۔ تاہم اس وقت تم افسر ہو اور افسر کی مخالفت ہمارا شیوہ نہیں۔ غرض کشتیوں کا پل باندھا گیا اور تمام فوج پار اتر کر غنیم سے معرکہ آراء ہوئی۔ پار کا میدان تنگ اور ناہموار تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو موقع نہیں مل سکتا تھا کہ فوج کو ترتیب سے آراستہ کر سکتے۔ ایرانی فوج کا نظارہ نہایت مہیب تھا۔ بہت سے کوہ پیکر ہاتھی تھے جن پر گھنتے لٹکتے تھے اور بڑے زور سے بجتے جاتے تھے۔ گھوڑوں پر آہنی پاکھریں تھیں۔ سوار سمور کی لمبی ٹوپیاں اوڑھے ہوئے صحرائی جانور معلوم ہوتے تھے۔ عرب کے گھوڑوں نے یہ مہیب نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بدک کر پیچھے ہٹے۔ ابو عبیدہ نے دیکھا کہ ہاتھیوں کے سامنے کچھ زور نہیں چلتا۔ گھوڑے سے کود پڑے اور ساتھیوں کو للکارا کہ جانبازو! ہاتھیوں کو بیچ میں لے لو اور ہودوں کو سواروں سمیت الٹ دو۔ اس آواز کے ساتھ گھوڑوں سے کود پڑے اور ہودوں کی رسیاں کاٹ کر فیل نشینوں کو خاک پر گرا دیا۔ لیکن ہاتھی جس طرف جھکتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی۔ ابو عبیدہ یہ دیکھ کر پیل سفید پر جو سب کا سردار تھا حملہ آور ہوئے اور سونڈ پر تلوار ماری کہ مستک سے الگ ہو گئی۔ ہاتھی نے بڑھ کر ان کو زمین پر گرا دیا اور سینے پر پاؤں رکھ دیئے کہ ہڈیاں تک چور چور ہو گئیں۔ ابو عبیدہ کے مرنے پر ان کے بھائی حکم نے علم ہاتھ میں لیا۔ اور ہاتھی پر حملہ آور ہوئے۔ اس نے ابو عبیدہ کی طرح ان کو بھی پاؤں میں لپیٹ کر مسل دیا۔ اس طرح سات آدمیوں نے جو سب کے سب ابو عبیدہ کے ہم نسب اور خاندان ثقیف سے تھے ، باری باری سے علم ہاتھ میں لئے اور مارے گئے۔ آخر میں مثنی نے علم لیا۔ لیکن اس وقت لڑائی کا نقشہ بگڑ چکا تھا۔ اور فوج میں بھگدڑ پڑ چکی تھی۔ طرہ یہ ہوا کہ ایک شخص نے دوڑ کر پل کے تختے توڑ دیئے کہ کوئی شخص بھاگ کر جانے نہ پائے۔ لیکن لوگ اس طرح بدحواس ہو کر بھاگتے تھے کہ پل کی طرف راستہ نہ ملا تو دریا میں کود پڑے۔ مثنی نے دوبارہ پل بندھویا اور سواروں کا ایک دستہ بھیجا کہ بھاگتوں کو اطمینان سے پار اتار دے۔ خود بچی کھچی فوج کے ساتھ دشمن کا اگا روک کر کھڑے ہوئے اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ ایرانی جو مسلمانوں کو دباتے آتے تھے رک گئے اور آگے نہ بڑھ سکے۔ تاہم حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ نو ہزار فوج میں سے صرف تین ہزار رہ گئی۔ اسلام کی تاریخ میں میدان جنگ سے فرار نہایت شاذ و نادر وقوع میں آیا ہے اور اگر کبھی ایسا واقعہ پیش آ بھی گیا تو اس کا عجیب افسوس ناک اثر ہوا ہے۔ اس لڑائی میں جن لوگوں کو یہ ذلت نصیب ہوئی وہ مدت تک خانہ بدوش پھرتے رہے۔ اور شرم سے اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے۔ اکثر رویا کرتے اور لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں یہ خبر پہنچی تو ماتم پڑ گیا۔ لوگ مسلمانوں کی بدقسمتی پر افسوس کرتے تھے۔ اور روتے تھے ، جو لوگ مدینہ پہنچ کر گھروں میں روپوش تھے ، اور شرم سے باہر نہیں نکلتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ