الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھے وہ جوش میں آ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ انا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کام کے لئے میں حاضر ہوں۔ ابو عبیدہ کی ہمت نے تمام حاضرین کو گرما دیا۔ اور ہر طرف سے غلغلہ اٹھا کہ ہم بھی حاضر ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ اور مضافات سے ہزار آدمی (بلازری کی روایت ہے ابو حنیفہ دینوری نے 5 ہزار تعداد لکھی ہے )۔ انتخاب کئے اور ابو عبیدہ کو سپہ سالار مقرر کیا۔ ابو عبیدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کا شرف حاصل نہ تھا۔ یعنی صحابی نہ تھے اس وجہ سے ان کی افسری پر کسی کو خیال ہوا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے آزادانہ کہا کہ " عمر! صحابہ میں سے کسی کو یہ منصب دو۔ فوج میں سینکڑوں صحابہ ہیں اور ان کا افسر بھی صحابی ہی ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ صحابہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ " تم کو جو شرف تھا وہ ہمت اور استقلال کی وجہ سے تھا۔ لیکن اس شرف کو تم نے خود کھو دیا۔ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جو لڑنے سے جی چرائے وہ افسر مقرر کئے جائیں۔ " تاہم چونکہ صحابہ کی دلجوئی ضروری تھی، ابو عبیدہ کو ہدایت کی کہ ان کی ادب ملحوظ رکھنا اور ہر کام میں ان سے مشورہ لینا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس نے ایران کو چونکا دیا تھا۔ چنانچہ پوران دخت نے رستم کو جو فرخ زاد گورنر خراسان کا بیٹا اور نہایت شجاع اور صاحب تدبیر تھا دربار میں طلب کیا۔ اور سزیر حرب مقرر کر کے کہا کہ تو سیاہ سپید کا مالک ہے۔ یہ کہہ کر اس کے سر پر تاج رکھا۔ اور درباریوں کو جن میں تمام امرا اور اعیانِ سلطنت شامل تھے۔ تاکید کی کہ رستم کی اطاعت سے کبھی انحراف نہ کریں۔ چونکہ اہل فارس اپنی نا اتفاقیوں کا نتیجہ دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے دل سے ان احکام کی اطاعت کی۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ چند روز میں تمام بد انتظامیاں مٹ گئیں اور سلطنت نے پھر وہی زور و قوت پیدا کر لی جو ہرمز و پرویز کے زمانے میں اس کو حاصل تھی۔ رستم نے سب سے پہلی تدبیر یہ کی کہ اضلاع عراق میں ہر طرف ہرکارے اور نقیب دوڑائیے جنہوں نے مذہبی حمیت کا جوش دلا کر تمام ملک میں مسلمانوں کے خلاف بغاوت پھیلا دی۔ چنانچہ ابو عبیدہ کے پہنچنے سے پہلے فرات کی تمام اضلاع میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور جو مقامات مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ پوران دخت نے رستم کی اعانت کے لیے ایک اور فوج گراں تیار کی۔ اور نرسی و جاہان کو سپہ سالار مقرر کیا۔ جاہان عراق کا ایک مشہور رئیس تھا۔ اور عرب سے اس کو خاص عداوت تھی۔ نرسی کسریٰ کا خالہ زاد بھائی تھا۔ اور عراق کے بعض اضلاع قدیم اس کی جاگیر تھے۔ یہ دونوں افسر مختلف راستوں سے عراق کی طرف بڑھے اور ادھر ابو عبیدہ اور مثنی حیرۃ تک پہنچ چکے تھے کہ دشمن کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا۔ مصلحت دیکھ کر خفان کو ہٹ آئے۔ جاہان نمازق پہنچ کر خیمہ زن ہوا۔