الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
پرویز کے بعد جو انقلابات حکومت ہوتے رہے اس کی وجہ سے ملک میں جا بجا بے امنی پھیل گئی۔ پوران کے زمانے میں مشہور ہو گیا کہ فارس میں کوئی وارث تاج و تخت نہیں رہا۔ برائے نام ایک عورت کو ایوان شاہی میں بٹھا رکھا ہے۔ اس خبر کہ شہرت کے ساتھ عراق میں قبیلہ وائل کے دو سرداروں۔ شیبانی اور سوید۔ نے تھوڑی سی جمعیت بہم پہنچا کر عراق کی سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طرف غارت گری شروع کی (الاخبار الطوال ابو حنیفہ دینوری)۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا اور خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیف اللہ یمامہ اور دیگر قبائل عرب کی مہمات سے فارغ ہو چکے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عراق پر حملہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خود اگرچہ اسلام لا چکے تھے۔ لیکن اس وقت تک ان کا تمام قبیلہ عیسائی یا بُت پرست تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت سے واپس آ کر انہوں نے اپنے قبیلہ کو اسلام کی ترغیب دی اور قبیلہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا (فتوح البلدان بلازری صفحہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )۔ ان نو مسلموں کے ایک بڑے گروہ نے عراق کا رخ کیا۔ ادھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلد کو مدد کے لئے بھیجا۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عراق مے تمام سرحدی مقام فتح کر لئے۔ اور حیرۃ پر علم فتح نصب کیا۔ یہ مقام کوفہ سے تین میل ہے۔ اور چونکہ یہاں نعمان بن منذر نے حوزنق ایک مشہور محل بنایا تھا وہ ایک یادگار مقام خیال کیا جاتا تھا۔ عراق کی یہ فتوحات خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بڑے کارناموں پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں تھا۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہمات عراق کا خاتمہ کر دیا ہوتا۔ لیکن چونکہ ادھر شام کی مہم درپیش تھی اور جس زور شور سے وہاں عیسائیوں نے لڑنے کی تیاریاں کی تھی اس کے مقابلے کا وہاں پورا سامان نہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربیع الثانی 13 ہجری (634 عیسوی) میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بھیجا کہ فوراً شام کو روانہ ہوں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اپنا جانشین کرتے جائیں۔ ادھر خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روانہ ہوئے اور عراق کی فتوحات دفعتہً رک گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر بیٹھے تو سب سے پہلے عراق کی مہم پر توجہ کی۔ بیعت خلافت کے لیے تمام اطراف و دیار سے بیشمار آدمی آئے تھے۔ اور تین دن تک ان کا تانتا بندھا رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا۔ ا ور مجمع عام میں جہاد کا وعظ کہا۔ لیکن چونکہ لوگوں کا عام خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے۔ اور وہ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بغیر فتح نہیں ہو سکتا۔ اس لئے سب خاموش رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئی دن تک وعظ کہا، لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر چوتھے دن اس جوش سے تقریر کی کہ حاضرین کے دل ہل گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیبانی نے اٹھ کر کہا کہ " مسلمانوں! میں نے مجوسیوں کو آزما لیا ہے۔ وہ مرد میدان نہیں ہیں۔ عراق کے بڑے بڑے اضلاع کو ہم نے فتح کر لیا ہے۔ اور عجم ہمارا لوہا مان گئے ہیں" حاضرین میں سے ابو عبیدہ ثقفی بھی تھے جو قبیلہ ثقیف کے مشہور سردار