الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مشورے کرتے رہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بزور ان سے بیعت لینی چاہی۔ لیکن بنو ہاشم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے " مصنف " میں اور علامہ طبری نے " تاریخ کبیر " میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا " یا بنت رسول اللہ خدا کی قسم آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ تاہم اگر آپ کے یہاں لوگ اس طرح مجمع کرتے رہے تو میں ان لوگوں کی وجہ سے گھر میں آگ لگا دوں گا۔ " اگرچہ سند کے اعتبار سے اس روایت پر ہم اپنا اعتبار ظاہر نہیں کر سکتے کیونکہ اس روایت کے رو۔ ۔ ۔ ۔ کا حال ہم کو معلوم نہیں ہو سکا۔ تاہم درایت کے اعتبار سے اس واقعہ کے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تندی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کاروائیاں کیں ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہوں، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بنو ہاشم کی سازشیں اگر قائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا۔ اور وہیں خانہ جنگیاں برپا ہو جاتیں جو آگے چل کر جناب علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں واقع ہوئیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی مدت سوا دو برس ہے۔ کیونکہ انہوں نے جمادی الثانی 13 ہجری میں انتقال کیا۔ اس عہد میں اگرچہ جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شرکت سے انجام پائے۔ تاہم ان واقعات کو ہم الفاروق میں نہیں لکھ سکتے کیونکہ وہ پھر بھی عہد صدیقی کے واقعات ہیں۔ اور اس شخص کا حصہ ہیں جس کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح عمری لکھنے کا شرف حاصل ہو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اگرچہ مدتوں کے تجربہ سے یقین ہو گیا تھا کہ خلافت کا بار گراں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کسی سے اٹھ نہیں سکتا تاہم وفات کے قریب انہوں نے رائے کا اندازہ کرنے کے لئے اکابر صحابہ سے مشورہ کیا۔ سب سے پہلے عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر پوچھا۔ انہوں نے کہا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قابلیت میں کیا کلام ہے۔ لیکن مزاج میں سختی ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " ان کی سختی اس لئے تھی کہ میں نرم تھا۔ جب کام انہی پر آ پڑے گا تو وہ خود نرم ہو جائیں گے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر پوچھا، انہوں نے کہا کہ " میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمر کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کو جواب نہیں۔ " جب اس بات کے چرچے ہوئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنا چاہتے ہیں تو بعضوں کو تردد ہوا۔ چنانچہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر کہا کہ " آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تو خدا جانے کیا کریں گے۔ اب آپ خدا کے ہاں جاتے ہیں۔ یہ سوچ لیجیئے کہ خدا کو کیا جواب دیجیئے گا۔ " حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا " میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو افسر مقرر کیا جو تیرے بندوں میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔ " یہ کہہ کر