الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کتب خانہ عام میں موجود ہے ) تھے۔ لڑائی کی صورت۔ ۔ ۔ ۔ کر پھر بن گئی۔ یعنی مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اور ہوازن کے چھ ہزار آدمی گرفتار ہوئے۔ 9 ہجری میں خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ کی تیاریاں کر رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر صحابہ کو تیاری کا حکم دیا اور چونکہ یہ نہایت تنگی اور عسرت کا زمانہ تھا، اس لئے لوگوں کو زر و مال سے اعانت کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ اکثر صحابہ نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقعہ پر تمام مال و اسباب میں سے لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا (ترمذی و ابو داؤد میں واقعہ فضائل ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تحت میں منقول ہے۔ لیکن غزوہ کی تعیین نہیں ہے )۔ غرض اسلحہ اور رسد کا سامان مہیا کیا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ سے روانہ ہوئے۔ لیکن مقام تبوک میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی۔ اسی لیے چند روز قیام فرما کر واپس آئے۔ اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ازواج مطہرات سے ناراض ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کی۔ اور چونکہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے طرز عمل سے یہ خیال ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ازواج کو طلاق دے دی اس لئے تمام صحابہ کو نہایت رنج و افسوس تھا۔ تاہم کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کچھ کہنے سننے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے حاضر ہونا چاہا۔ لیکن بار بار اذن مانگنے پر بھی اجازت نہ ملی۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکار کر دربان سے کہا کہ " شاید رسول اللہ کو یہ گمان ہے کہ میں حفصہ (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ) کی سفارش کے لئے آیا ہوں۔ خدا کی قسم اگر رسول اللہ حکم دیں تو میں جا کر حفصہ کی گردن مار دوں۔ " آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فوراً بلایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی کہ " کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ازواج کو طلاق دے دی؟" آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا " نہیں " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ تمام مسلمان مسجد میں سوگوار بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیں تو انہیں یہ مژدہ سنا آؤں۔ اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تقرب کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہی واقعات کے سلسلے میں ایک موقع پر کہا کہ " عمر! تم ہر چیز میں دخیل ہو گئے۔ یہاں تک کہ اب ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دینا چاہتے ہو۔ " 10 ہجری (636 عیسوی) میں اطراف عرب سے نہایت کثرت سے سفارتیں آئیں۔ اور ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام کے حلقے میں آئے۔ اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کے لئے مکہ معظمہ کا قصد کیا اور یہ حج آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری حج تھا۔ 11 ہجری (623 عیسوی) (یہ سن غلط ہے یا پھر اوپر دیا ہوا سن غلط ہے ) ماہ صفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم