الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہاں دراصل یہ امر غور طلب ہے کہ جو واقعہ جس طریقے سے روایتوں میں منقول ہے اس سے کسی امر پر اسثناد ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس بحث کے لیے پہلے واقعات ذیل کو پیش نظر رکھنا چاہیے : (۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کم و بیش 13 دن تک بیمار رہے۔ (۲) کاغذ و قلم دوات طلب کرنے کا واقعہ جمعرات کے دن کا ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں بہ تصریح مذکور ہے۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دو شنبہ کے دن انتقال فرمایا۔ اس لئے اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چار دن تک زندہ رہے۔ (۳) اس تمام مدت بیماری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت اور کوئی واقعہ اختلال حواس کا کسی روایت میں کہیں مذکور نہیں۔ (۴) اس واقعہ کے وقت کثرت سے صحابہ موجود تھے۔ لیکن یہ حدیث باوجود اس کے بہت سے طریقوں سے مروی ہے۔ (چنانچہ صرف صحیح بخاری میں سات طریقوں سے مذکور ہے۔ ) باایں ہمہ بجز عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اور کسی صحابی سے اس واقعہ کے متعلق ایک حرف بھی منقول نہیں۔ (۵) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اس وقت صرف 13 – 14 برس کی تھی۔ (۶) اس سے بڑھ کر یہ کہ جس وقت کا یہ واقعہ ہے۔ اس موقع پر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود موجود نہ تھے۔ اور یہ معلوم نہیں کہ یہ واقعہ انہوں نے کس سے سنا۔ (بخاری باب کفایہ العلم میں جو حدیث مذکور ہے اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعہ میں موجود تھے۔ اس لئے محدثین نے اس پر بحث کی ہے اور بہ دلائل قطعیہ ثابت کیا ہے موجود نہ تھے۔ دیکھو فتح الباری باب کفایہ العلم)۔ (۷) تمام روایتوں میں مذکور ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کاغذ قلم مانگا تو لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بہکی ہوئی باتیں کر رہے ہیں۔ (علامہ قرطینی نے یہ تاویل کی ہے اور اس پر ان کو ناز ہے کہ " لوگوں نے یہ لفظ استعجاب کے طور پر کہا تھا۔ یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے۔ خدانخواستہ آنحضرت