الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللھم انی غلیظ فلینی اللھم انی ضعیف فقونی الا و ان العرب جمل انف و قد اعطیت خطامہ الاوانی حاملہ علی المحجۃ۔ "اے خدا! میں سخت ہوں مجھ کو نرم کر۔ میں کمزور ہوں مجھ کو قوت دے (قوم سے خطاب کر کے ) ہاں! عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے لیکن میں ان کو راستہ پر چلا کر چھوڑوں گا۔ " خلافت کے دوسرے تیسرے دن جب انہوں نے عراق پر لشکر کشی کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا تو لوگ ایران کے نام سے جی چراتے تھے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے بلا لئے گئے تھے۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زور تقریر کا یہ اثر تھا کہ مثنیٰ شیبانی ایک مشہور بہادر بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا۔ اور پھر تمام مجمع میں آگ لگ گئی۔ دمشق کے سفر میں جابیہ میں ہر قوم اور ہر ملت کے آدمی جمع تھے۔ عیسائیوں کا لارڈ بشپ تک شریک تھا۔ اس کے ساتھ مختلف مذاہب اور مختلف قوم کے آدمی شریک تھے۔ اور مختلف مضامین اور مختلف مطالب کا ادا کرنا مسلمانوں کو اخلاق کی تعلیم دینی تھی۔ غیر قوموں کو اسلام کی حقیقت اور اسلام کی جنگ و صلح کے اغراض بتانے تھے۔ فوج کے سامنے خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معزولی کا عذر کرنا تھا۔ ان تمام مطالب کو اس خوبی سے ادا کیا کہ مدت تک ان کی تقریر کے جستہ جستہ فقرے لوگوں کی زبان پر رہے۔ فقہاء نے اس سے فقہی مسائل استنباط کئے۔ اہل ادب نے قواعد فصاحت و بلاغت کی مثالیں پیدا کیں۔ تصوف و اخلاق کے مضامین لکھنے والوں نے اپنا کام کیا۔ 23 ہجری میں جب حج کیا اور یہ ان کا اخیر حج تھا تو ایک شخص نے کسی سے تذکرہ کیا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مر جائیں گے تو میں طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام منا میں تشریف رکھتے تھے اور وہیں یہ واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کی خبر ہوئی تو برافروختہ ہو کر فرمایا کہ آج رات میں اسی مضمون پر خطبہ دوں گا۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی امیر المومنین حج کے مجمع میں ہر قسم کے برے بھلے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے یہ تقریر کی تو اکثر لوگ صحیح پیرایہ میں نہ سمجھیں گے۔ اور نہ ادا کر سکیں گے۔ مدینہ چل کر خواص کے مجمع میں تقریر کیجیئے گا۔ وہ لوگ ہر بات کا پہلو سمجھتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے تسلیم کی۔ آخر ذولحجہ میں مدینہ ائے۔ جمعہ کے دن لوگ بڑے شوق و انتظار سے مسجد میں پہلے آ آ کر جمع ہوئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ زیادہ مشتاق تھے۔ اس لئے منبر کے قریب جا کر بیٹھے اور سعید بن زید سے مخاطب ہو کر کہا کہ آج عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسی تقریر کریں گے کہ کبھی نہیں کی تھی۔ سعید نے تعجب سے کہا کہ ایسی نئی بات کیا ہو سکتی ہے جو انہوں نے پہلے نہیں کہی؟ غرض اذان ہو چکی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیا۔ یہ پورا واقعہ اور پورا خطبہ صحیح بخاری میں