الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ان روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فدک کا مملوکہ نبوت ہونا ایسا ہی تھا جیسا کہ سلاطین کے لئے کوئی جائیداد خالص کر دی جاتی ہے۔ اس بناء پر باوجود مخصوص ہونے کے وقف کی حیثیت اس سے زائل نہیں ہوتی۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان اصولوں سے واقف تھے ؟ اور اسی بناء پر انہوں نے فدک میں وراثت نہیں جاری کی یا نکات بعد الوقوع ہیں؟ عراق و شام کی فتح کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کے مجمع میں تقریر کی تھی۔ اس میں قرآن مجید کی اس آیت سے ما افآء اللہ علیٰ رسولہ من اھل القریٰ فللہ الخ سے استدلال کر کے صاف کہہ دیا تھا کہ مقامات مفتوحہ کسی خاص شخص کی ملک نہیں ہیں، بلکہ عام ہیں چنانچہ فے کے ذکر میں یہ بحث گزر چکی ہے ، البتہ یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت سے پہلے جو آیت ہے ، اس سے فدک وغیرہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خاص جائیداد ہونا ثابت ہوتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے یہی معنی قرار دیتے تھے۔ آیت یہ ہے۔ :وما افآء اللہ علیٰ رسولہ منھم فما او جفتم من خیل ولا رکاب و ککن اللہ یسلط رسلہ علیٰ من یشاء۔ , آیت: "اور جو ان لوگوں سے (یعنی یہود بنی نضیر سے ) خدا نے اپنے پیغمبر کو دلوایا تو تم لوگ اس پر چڑھ کر نہیں گئے تھے بلکہ خدا اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے۔ " چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کو پڑھ کر کہا تھا کہ فکانت خالصہ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور یہ واقعہ صحیح بخاری، باب الخمس اور باب المغازی اور باب المیراث میں بتفصیل مذکور ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی بناء پر فدک وغیرہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا خالصہ سمجھتے تھے لیکن اس قسم کا خالصہ جو ذاتی ملکیت نہیں ہوتا جس طرح سلاطین کے مصارف کے لئے کوئی زمین خاص کر دی جاتی ہے کہ اس میں میراث کا عام قاعدہ نہیں جاری ہوتا بلکہ جو شخص جانشین سلطنت ہوتا ہے ، تنہا وہی اس سے متمتع ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس خیال کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے جب آیت مذکورہ بالا کی بناء پر فدک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا خالصہ کہا تو ساتھ ہی یہ الفاظ فرمائے جیسا کہ صحیح بخاری باب الخمس و باب المغاذی وغیرہ میں مذکور ہے۔