الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی جائیداد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مملوکہ خاص کیونکر ہو سکتی ہے۔ فدک کی ملکیت خاص کا دعویٰ اس بناء پر کیا جاتا ہے کہ وہ فوج کے ذریعے فتح نہیں ہوا۔ بلکہ اس آیت کے مصداق ہے فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب لیکن کیا جو ممالک صلح کے ذریعے سے قبضے میں آتے ہیں اور امام یا بادشاہ کی ملکیت خاص قرار پاتے ہیں؟ عرب کے اور مقامات بھی اس طرح قبضہ میں آئے کہ ان پر چڑھائی نہیں کرنی پڑی۔ کیا ان کو کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ملکیت سمجھا؟ البتہ یہ امر غور طلب ہے کہ جب اور مقامات مفتوحہ کی نسبت کسی نے اس قسم کا خیال نہیں کیا تو فدک میں کیا خصوصیت تھی جس کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مفتوحہ زمینیں علانیہ وقف عام رہیں، لیکن فدک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے مصارف کے لئے مخصوص کر لیا تھا۔ اس سے اس خیال کا موقع ملا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جائیداد خاص ہے۔ اس خیال کی تائید اس سے ہوئی کہ فدک پر لشکر کشی نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے اس پر لوگوں کو کسی قسم کا حق حاصل نہیں تھا۔ لیکن یہ خیال دراصل صحیح نہیں۔ فدک کو بے شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ذاتی مصارف کے لیے خاص کر لیا تھا۔ لیکن کیونکر؟ اس کے متعلق تفصیلی روایتیں موجود ہیں۔ فکان نصف فدک خالصاً لرسول اللہ و کان یصرف مایاتیۃ منھا الی ابناء السبیل۔ (فتوح البلدان بلاذری صفحہ 29) یعنی " آدھا فدک خاص رسول اللہ کا تھا۔ آنحضرت اس میں سے مسافروں پر صرف کرتے تھے۔ " ایک اور روایت میں ہے۔ ان فدک کانت للنبی صلی اللہ علیہ و سلم فکان ینفق منھا و یاکل و یعود علیٰ فقرآء بنی ھاشم و یزوج ایمھم۔ (فتوح البلدان صفحہ 31)۔ یعنی "فدک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا۔ آپ اس میں سے خرچ کرتے تھے اور فقرائے بنی ہاشم کو دیتے تھے۔ اور ان کی بیواؤں کی شادی کرتے تھے۔ " بخاری وغیرہ میں تصریح مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سال بھر کا اپنا خرچ اس میں سے لیتے تھے۔ باقی عام مسلمین کے مصالح میں دیتے تھے۔