الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مملوکہ خاص ٹھہری تو اس میں وراثت کا عام قاعدہ جو قرآن مجید میں مذکور ہے جاری ہو گا۔ اور آنحضرت کے ورثہ اس کے مستحق ہوں گے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باوجود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طلب و تقاضا کے آل نبی کو اس سے محروم رکھا۔ یہ بحث اگرچہ طرفین کی طبع آزمائیوں میں بہت بڑھ گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بات نہایت مختصر تھی اور اب جبکہ سیاست مدن کے اصول زیادہ صاف اور عام فہم ہو گئے ہیں، یہ مسئلہ اس قابل بھی نہیں رہا کہ بحث کے دائرہ میں لایا جائے۔ اصل یہ ہے کہ نبی یا امام، یا بادشاہ کے قبضے میں جو مال یا جائیداد ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک مملوکہ خاص جس کے حاصل ہونے میں نبوت اور امامت و بادشاہت کے منصب کو کچھ دخل نہیں ہوتا۔ مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام زرہ بنا کر معاش حاصل کرتے تھے یا عالمگیر قرآن لکھ کر بسر کرتا تھا۔ یہ آمدنی ان کی ذاتی آمدنی تھی۔ اور اس پر ہر طرح کا ان کو اختیار تھا۔ دوسری مملوکہ حکومت مثلاً داؤد علیہ السلام کے مقبوضہ ممالک جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضے میں آئے۔ اس دوسری قسم میں وراثت نہیں جاری ہوتی۔ جو شخص پیغمبری یا امامت یا بادشاہت کی حیثیت سے جانشین ہوتا ہے وہی اس کا مالک ہوتا ہے ، یہ مسئلہ آج کل کے مذاق کے موافق بالکل ایک بدیہی بات ہے۔ مثلاً سلطان عبد الحمید خان کے بعد ان کے ممالک مقبوضہ یا ان کی جاگیر خالصۃً ان کے بیٹے بھائی، ماں، بہن وغیرہ میں تقسیم نہیں ہو گی بلکہ جو تخت نشین ہو گا اس پر قابض ہو گا۔ مذہبی حیثیت سے بھی مسلمانوں کے ہر فرقہ میں یہ قاعدہ ہمیشہ مسلم رہا۔ مثلاً جو لوگ فدک کو درجہ بدرجہ ائمہ اثنا عشر کا حق سمجھتے ہیں وہ بھی اس میں وراثت کا قاعدہ نہیں جاری کرتے۔ مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانے میں اس کے مالک ہوئے تو یہ ہوا کہ ان کی وفات کے بعد وراثت کا قاعدہ جاری ہوتا اور حسین و عباس و محمد بن حنیفیہ و زینت کو جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وارث تھے اس کا کچھ کچھ حصہ اس کے پڑتہ سے ملتا۔ بلکہ صرف حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبضہ میں آیا کیونکہ امامت کی حیثیت سے وہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانشین تھے۔ غرض یہ عام اور مسلم قاعدہ ہے کہ جو جائیداد نبوت یا امامت یا بادشاہت کے منصب سے حاصل ہوتی ہے ، وہ مملوکہ خاص نہیں ہوتی۔ اب صرف یہ دیکھنا ہے کہ باغ فدک کیونکر حاصل ہوا تھا۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب خیبر کی فتح سے پھرے ، تو محیصہ بن مسعود انصاری کو فدک والوں کے پاس تبلیغ اسلام کے لئے بھیجا، فدک یہودیوں کے قبضہ میں تھا اور ان کا سردار یوشع بن نون ایک یہودی تھا۔ یہودیوں نے صلح کا پیغام بھیجا اور معاوضہ صلح میں آدھی زمین دینی منظور کی (فتوح البلدان۔ بلاذری، ذکر فدک)۔ اس وقت سے یہ باغ اسلام کے قبضہ میں آیا۔