الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
"عمر بن الخطاب نے یہ بات ہم لوگوں کے سامنے پیش کی تھی کہ ہم لوگ خمس کے مال سے اپنی بیواؤں کے نکاح اور مقروضوں کے ادائے قرض کے مصارف لے لیا کریں لیکن ہم بجز اس کے تسلیم نہیں کرتے تھے کہ سب ہمارے ہاتھ دے دیا جائے۔ عمر نے اس کو منظور نہ کیا۔ " اور روایتیں بھی اسی کے موافق ہیں صرف کلبی کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذوی القربی کا حق ساقط کر دیا۔ کلبی نہایت ضعیف الروایۃ ہے۔ اس لئے اس کی روایت کا اعتبار نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید کے فحویٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے طریق عمل کو منطبق کر کے دیکھو تو صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ کیا وہ بالکل قرآن و حدیث کے مطابق تھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ وغیرہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ پورا پانچواں حصہ دیتے تھے ، قرآن مجید سے یہ تعین و تجدید بالکل ثابت نہیں ہو سکتی۔ باقی رہا ذوی القربی کا غیر معین حق تو اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہرگز انکار نہ تھا۔ اب اصول عقلی کے لحاظ سے اس مسئلہ کو دیکھو یعنی خمس میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آنحضرت کے قرابت داروں کا حصہ قرار پانا کس اصول کی بناء پر تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تبلیغ احکام اور مہمات رسالت کے انجام دینے کی وجہ سے معاش کی تدبیر میں مشغول نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لئے ضرور تھا کہ ملک کی آمدنی میں سے کوئی حصہ آپ کے لئے مخصوص کر دیا جائے اس وقت مال غنیمت " فے " و " انفال " بس یہی آمدنیاں تھیں۔ چنانچہ ان سب میں سے خدا نے آپ کا حصہ مقرر کیا تھا۔ جس کا ذکر قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے بادشاہ کے ذاتی مصارف کے لئے خالصہ مقرر کر دیا جاتا ہے۔ ذوی القربی کا حق اس لئے قرار دیا گیا تھا کہ ان لوگوں نے ابتدائے اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ کا ساتھ دیا تھا۔ چنانچہ کفار مکہ نے زیادہ مجبور کیا تو تمام بنو ہاشم نے جس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دیا۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے نکل کر ایک پہاڑ کے درے میں پناہ گزین ہوئے تو سب بنی ہاشم بھی ساتھ گئے۔ اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور ذوی القربی کے لئے جو کچھ مقرر تھا، وقتی ضرورت اور مصلحت کے لحاظ سے تھا۔ لیکن یہ قرار دینا کہ قیامت تک آپ کے قرابت داروں کے لئے پانچواں حصہ مقرر کر دیا گیا۔ اور گو ان کی نسل میں کسی قدر ترقی ہوئی ہو اور گو وہ کتنے ہی دولت مند اور غنی ہو جائیں یہ رقم ہمیشہ ملتی رہے گی۔ یہ ایسا قاعدہ ہے جو اصول تمدن کے بالکل خلاف ہے اور کون یقین کر سکتا ہے کہ ایک سچا بانی شریعت یہ قاعدہ بنائے گا کہ اس کی تمام اولاد کے لئے قیامت تک ایک معین رقم ملتی رہے۔ اگر کوئی بانی شریعت ایسا کرے تو اس میں اور خود غرض برہمنوں میں کیا فرق ہو گا۔ حضرت علی رضی