الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱ – ذوی القربی میں سے آپ صرف بنو ہاشم و بنو مطلب کو حصہ دیتے تھے۔ بنو نوفل اور بنو عبد شمس حالانکہ ذوی القربی میں داخل تھے ، لیکن آپ نے ان کو باوجود طلب کرنے کے بھی کچھ نہیں دیا۔ چنانچہ اس واقعہ کو علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں کتب حدیث سے بتفصیل نقل کیا ہے۔ (زاد المعاد جلد دوم صفحہ ۱۶۱) ۲ – بنو ہاشم و بنو عبد المطلب کو جو حصہ دیتے تھے وہ سب کو مساویانہ نہیں دیتے تھے۔ علامہ ابن القیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے۔ ولکن لم یکن یقسمہ بینھم علی السواء بین الغنیائھم و فقرائھم ولا کان یقسمہ قسمۃ المیراث بل کان یصرفہ فیھم بحسب المصلحۃ والحاجۃ فیزوج منھم اغربھم و یقضی منہ عن غار مھم و یعطی منہ فقیرھم کفایۃ۔ (زاد المعاد جلد ثانی صفحہ 142)۔ "لیکن دولت مندوں اور غریبوں کو برابر نہیں تقسیم کرتے تھے۔ نہ میراث کے قاعدے سے تقسیم کرتے تھے۔ بلکہ مصلحت اور ضرورت کے موافق عطا فرماتے تھے۔ یعنی کنواری کی شادی کرتے تھے ، مقروضوں کا قرض ادا فرماتے تھے ، غریبوں کو بقدر حاجت دیتے تھے۔ " ان واقعات سے اولاً یہ ثابت ہوا کہ ذوی القربی کے لفظ میں تعمیم نہیں ہے ورنہ بنو نوفل اور بنو عبد الشمس کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حصہ دیتے۔ کیونکہ وہ لوگ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قرابت دار تھے۔ دوسرے یہ کہ بنو ہاشم اور بن عبد المطلب کے تمام افراد کو مساوی طور سے حصہ نہیں ملتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاں تک صحیح روایتوں سے ثابت کیا ہے بنو ہاشم اور بنو مطلب کا حق بحال رکھا۔ وہ دو باتوں میں اس نے مخالف تھے ایک یہ کہ وہ مصلحت اور ضرورت کے لحاظ سے کم و بیش تقسیم کرنا خلیفہ وقت کا حق سمجھتے تھے۔ برخلاف اس کے عبد اللہ بن عباس وغیرہ کا یہ دعویٰ تھا کہ پانچواں حصہ پورے کا پورا خاص ذوی القربی کا حق ہے اور کسی کو اس میں کسی قسم کے تصرف کا حق حاصل نہیں۔ قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ صاحب نے کتاب الخراج میں نسائی نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عباس کو قول نقل کیا ہے۔ عرض علینا عمر بن الخطاب ان نزوج من الخمس ایمنا و نقضی منہ عن مغر منا فابینا الا ان یسلمہ لنا و ابی فلک علینا۔ (کتاب الخراج صفحہ 11)۔