الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ صرف حضرت علی و عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی رائے نہ تھی بلکہ تمام اہل بیت کا اس مسئلہ پر اتفاق تھا۔ ائمہ مجتہدین میں سے امام شافعی اسی کے قائل تھے ا ور انہوں نے اپنی کتابوں میں بڑے زور شور کے ساتھ اس پر استدلال کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت لوگوں کا بیان ہے کہ وہ قرابت داران پیغمبر کو مطلقاً خمس کا حقدار نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اہل بیت کو کبھی خمس میں سے حصہ نہیں دیا۔ ائمہ مجتہدین میں سے امام ابو حنیفہ بھی ذوی القربی کے خمس کے قائل نہ تھے۔ ان کی رائے تھی کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آنحضرت کا حصہ جاتا رہا اسی طرح آنحضرت کے قرابت داروں کا حصہ بھی جاتا رہا۔ اب ہم کو غور کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ قرآن مجید سے کیا حکم نکلتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریق عمل کیا تھا۔ قرآن مجید کی عبارت سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر پانچ گروہ خمس کے مصرف ہیں۔ لیکن اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ فرداً فرداً ہر گروہ میں تقسیم کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید میں جہاں زکوٰۃ کے مصارف بیان کئے ہیں وہاں بھی بعینہ اسی قسم کے الفاظ ہیں۔ انما الصدقت للفقرآء والمسکین ولعاملین علیھا والمؤلفۃ قلوبھم و فی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ وابن السبیل۔ اس میں زکوٰۃ کے مصارف آٹھ گروہ قرار دیئے ہیں۔ فقیر، مسکین، زکوٰۃ وصول کرنے والے مؤلفتہ القلوب، قیدی، قرضدار، مجاہدین، مسافر، ان میں سے جس کو زکوٰۃ دی جائے ادا ہو جائے گی۔ یہ ضروری نہیں کہ خواہ مخواہ آٹھ گروہ پیدا کئے جائیں۔ آٹھوں گروہ موجود بھی ہوں تب بھی یہ لحاظ کیا جائے گا کہ کون سے فریق اس وقت زیادہ مدد کا محتاج ہے۔ کون کم اور کون بالکل نہیں۔ یہ التزام مالا یلزم صرف امام شافعی نے اختراع کیا ہے کہ آٹھ برابر حصے کئے جائیں۔ اور آٹھوں گروہ کو ضرورت بے ضرورت کم بیش تقسیم کیا جائے۔ اسی طرح خمس کے مصارف جو خدا نے بتائے ہیں اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خمس ان لوگوں کے سوا اور کسی کو نہ دیا جائے۔ یہ نہیں کہ خواہ مخواہ اس کے پانچ برابر حصے کئے جائیں۔ اور پانچوں فریقوں کو برابر دیا جائے۔ اب دیکھو رسول اللہ کا طریقہ عمل کیا تھا؟ احادیث و روایات کے استقراء سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے۔