الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصول مساوات کے ساتھ اپنے لئے امیر المومنین کا پرفخر لقب کیوں ایجاد کیا۔ اصل یہ ہے کہ اس زمانے تک یہ لقب کوئی فخر کی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ بلکہ اس سے صرف عہدہ اور خدمت کا اظہار ہوتا تھا۔ افسران فوج عموماً امیر کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ کفار عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو امیر مکہ کہا کرتے تھے۔ سعد بن وقاص کو عراق میں لوگوں نے امیر المومنین کہنا شروع کر دیا تھا (مقدمہ ابن خلدون فصل فی اللقب بامیر المومنین)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس لقب کا خیال تک نہ تھا۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ایک دفعہ لبید بن ربیعہ اور عدی بن حاتم مدینہ میں آئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا۔ قاعدہ کے موافق اطلاع کرائی اور چونکہ کوفہ میں رہ کر امیر المومنین کا لفظ ان کی زبان پر چڑھا ہوا تھا، اطلاع کرتے وقت یہ کہا کہ امیر المومنین کو ہمارے آنے کی اطلاع کر دو۔ عمرو بن العاص نے اطلاع کی اور یہی خطاب استعمال کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خطاب کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے کیفیت واقعہ بیان کی۔ اس لقب کو پسند کیا اور اسی تاریخ سے اس کو شہرت عام ہو گئی ("ادب المفرد" امام بخاری مطبوعہ آرہ صفحہ 184 ) اس موقعہ پر ممکن ہے کہ ایک کوتاہ نظر کو یہ خیال ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت سے اگر کسی قسم کا جاہ و اعزاز مقصود نہ تھا تو انہوں نے خلافت اختیار کیوں کی؟ بے غرضی کا یہ اقتضا تھا کہ وہ اس خوان نعمت کو ہاتھ ہی نہ لگاتے لیکن یہ خیال محض عامیانہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے شبہ خلافت سے ہاتھ اٹھاتے لیکن دوسرا کون تھا جو اس کو سنبھال لیتا؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قطعی طور سے جانتے تھے کہ یہ بار گراں ان کے سوا کسی سے اٹھ نہیں سکتا! کیا ایسے وقت میں ان کی راست بازی کا یہ تقاضا تھا کہ وہ دیدہ دانستہ لوگوں کی بد گمانیوں کے خیال سے خلافت سے دستبردار ہو جاتے اگر وہ ایسا کرتے تو خدا کو کیا جواب دیتے ؟ انہوں نے اسی دن خطبہ میں کہہ دیا تھا کہ۔ لو لا رجائی ان اکون خیر کم لکم و اقوا کم علیکم و اشد کم اطلاعاً بماینوب من مھم امر کم ماتولیت ذلک منکم۔ یعنی " اگر مجھ کو یہ امید نہ ہوتی کہ میں تم لوگوں کے لئے سب سے زیادہ کارآمد سب سے زیادہ قومی اور مہمات امور کے لئے سب سے زیادہ قوی بازو ہوں تو میں اس منصب کو قبول نہ کرتا۔ " اس سے زیادہ صاف وہ الفاظ ہیں جو امام محمد نے مؤطا میں روایت کئے ہیں۔ او علمت ان احداً اقوی علیٰ ھذا الا مرمنی لکان ان اقدم فیضرب عنقی اھون علی۔ (کتاب مذکور مطبوعہ مصطفائی صفحہ 164)۔ یعنی " اگر میں جانتا کہ کوئی شخص اس کام (خلافت) کے لئے مجھ سے زیادہ قوت رکھتا ہے تو خلافت قبول کرنے کی بہ نسبت میرے نزدیک زیادہ آسان تھا کہ میری گردن مار دی جائے۔ "