الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تعالیٰ عنہ نے فرمایا " تاہم ایسا ضرور ہو گا" یہ کہہ کر پھر مستغیث کی طرف متوجہ ہوئے کہ " اپنا کام کر "۔ آخر عمرو بن العاص نے مستغیث کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ دو سو دینار لے لے اور اپنے دعویٰ سے باز آ جائے۔ ایک دفعہ سرداران قریش ان سے ملاقات کو آئے۔ اتفاق سے ان لوگوں سے پہلے صہیب، بلال، عمار وغیرہ بھی ملاقات کے منتظر تھے۔ جن میں اکثر آزاد شدہ غلام تھے اور دنیاوی حیثیت سے معمولی درجہ کے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اول انہی لوگوں کو بلایا اور سرداران قریش باہر بیٹھے رہے۔ ابو سفیان جو زمانہ جاہلیت میں تمام قریش کے سردار تھے۔ ان کو یہ امر سخت ناگوار گزرا اور ساتھیوں سے خطاب کر کے کہا کہ " کیا خدا کی قدرت ہے۔ غلاموں کو دربار میں جانے کی اجازت ملتی ہے اور ہم لوگ باہر بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ ابو سفیان کی یہ حسرت اگرچہ ان کے اقران کے مذاق کے مناسب تھی تاہم ان میں کچھ حق شناس بھی تھے۔ ایک نے کہا " بھائیو سچ یہ ہے کہ ہم کو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نہیں بلکہ اپنی شکایت کرنی چاہیے۔ اسلام نے سب کو ایک آواز سے بلایا۔ لیکن جو اپنی شامت سے پیچھے پہنچے وہ آج بھی پیچھے رہنے کے مستحق ہیں (کتاب الخراج صفحہ 66)۔ قادسیہ کے بعد جب تمام قبائل عرب اور صحابہ کی تنخواہیں مقرر کیں تو بڑے رشک و منافرت کا موقع پیش آیا۔ سرداران قریش اور معزز قبائل کے لوگ جو ہر موقع پر امتیاز کے خوگر تھے بڑے دعوے کے ساتھ منتظر رہے کہ تنخواہ کے تقرر میں حفظ مراتب کا خیال کیا جائے گا اور فہرست میں ان کے نام سب سے پہلے نظر آئیں گے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے تمام خیالات غلط کر دیئے۔ انہوں نے دولت و جاہ، زور قوت، ناموری و شہرت، اعزاز و امتیاز کی تمام خصوصیتوں کو مٹا کر صرف اسلامی خصوصیت قائم کی اور اسی اعتبار سے تنخواہ کم و بیش مقرر کیں۔ جو لوگ اول اسلام لائے تھے یا جہاد میں کارہائے نمایاں کئے تھے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خصوصیت رکھتے تھے ان کو غیروں پر ترجیح دی جو ان خصوصیتوں میں برابر درجے پر تھے۔ ان کی تنخواہیں برابر مقرر کیں۔ یہاں تک کہ غلام اور آقا میں کچھ فرق نہ رکھا۔ حالانکہ عرب میں غلام سے بڑھ کر کوئی گروہ خوار و ذلیل نہ تھا۔ اسی موقع پر اسامہ بن زید کی تنخواہ جب اپنے بیٹے سے زیادہ مقرر کی تو انہوں نے عذر کیا کہ واللہ کسی موقع پر مجھ آگے نہیں رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ہاں! لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسامہ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ اہل عرب کا شعار تھا کہ لڑائیوں میں فخریہ اپنے اپنے قبیلہ کی جے پکارا کرتے تھے۔ اس فخر کو مٹانے کے لئے تمام فوجی افسروں کو لکھ بھیجا کہ جو لوگ ایسا کریں ان کو سخت سزا دی جائے " ایک دفعہ ایک شخص نے جو ضبہ کے قبیلہ سے تھا لڑائی میں یا آل ضبہ کا نعرہ لگایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر ہوئی تو سال بھر کے لئے اس کی تنخواہ بند کر دی۔ اس قسم کے اور بہت سے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں (فتوح البلدان صفحہ 456)۔