الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پوچھو تو درحقیقت دونوں طرح کی مشکلات کا سامنا تھا۔ غیر قومیں جو حلقہ اطاعت میں آئی تھیں، پارسی یا عیسائی تھیں جو مدت تک شاہنشاہی کے لقب سے ممتاز رہی تھیں۔ اس لئے ان کو رعیت بننا مشکل سے گوارہ ہو سکتا تھا۔ اندرونی حالت یہ تھی کہ عرب میں بہت سے صاحب ادعا موجود تھے۔ جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مثلاً ایک مؤلفۃ القلوب کا گروہ تھا۔ جن کا قول تھا کہ خلافت بنو ہاشم یا بنو امیہ کا حق ہے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی میں سے نہیں۔ عمرو بن العاص جو مصر کے گورنر تھے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو خراج کے معاملے میں تنگ پکڑا تو انہوں نے نہایت حسرت سے کہا کہ خدا کی قدرت ہے ! جاہلیت میں میرا باپ جب کمخواب کی قبا زیب تن کرتا تھا تو خطاب (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد) سر پر لکڑی کا گٹھا لادے پھرتے تھے۔ آج اسی خطاب کا بیٹا مجھ پر حکومت جتا رہا ہے۔ بنو ہاشم ہمیشہ استعجاب کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ ان کے ہوتے ہوئے تیمی اور عدوی خلافت پر کیونکر قبضہ کر بیٹھے ہیں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کا علانیہ نقض خلافت کے مشورے ہوتے رہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب ازالۃ الخفاء میں لکھتے ہیں کہ "زبیر و جمعے از بنو ہاشم درخانہ حضرت فاطمہ جمع شدہ درباب نقض خلافت مشور ہا بکاری بروند۔ " (ازالۃ الخفاء حصہ دوم صفحہ 29)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سطوت نے بنو ہاشم کے ادعا کو اگرچہ دبا دیا لیکن بالکل مٹ کیونکر سکتا تھا، اس کے علاوہ عرب کا فطری مذاق آزادی اور خود سری تھا اور یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی فرمانروا کی حکومت کے نیچے نہیں آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر امر معاویہ کی طرح اس آزادی اور خود سری کو مٹا کر حکومت کا رعب و داب قائم رکھتے تو چنداں قابل تعجب نہ تھا لیکن وہ عرب کے اس جوہر کو کسی طرح مٹانا نہیں چاہتے تھے بلکہ اور چمکاتے تھے۔ بارہا مجامع عام میں لوگ ان پر نہایت آزادانہ بلکہ گستاخانہ نکتہ تنقید کرتے تھے اور وہ گوارا کرتے تھے۔ شام کے سفر میں جب انہوں نے مجمع عام میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معزولی کی وجہ اور اپنی برات بیان کی تو ایک شخص نے وہیں اٹھ کر کہا (اسد الغابہ تذکرہ احمد بن حفص الحرومی) واللہ ما عدلت یا عمر! لقد نزعت عاملاً استعملہ رسول اللہ و غمدت سیفاسلہ رسول اللہ ولقد قطعت الرحم و حسدت ابن العم۔ یعنی " اے عمر! خدا کی قسم تو نے انصاف نہیں کیا۔ تو نے رسول اللہ کے عامل کو موقوف کر دیا۔ تو نے رسول کی کھینچی ہوئی تلوار کو نیام میں ڈال دیا۔ تو نے قطع رحم کیا، تو نے اپنے چچیرے بھائی سے حسد کیا۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سب سن کر کہا کہ تم کو اپنے بھائی کی حمایت میں غصہ آ گیا۔ ان حالات کے ساتھ یہ رعب و دات کہ حضرت خالد کو عین اس وقت جب تمام عراق و شام میں لوگ ان کا کلمہ پڑھنے لگے تھے ، معزول کر دیا تو کسی