الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : وہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت دونوں آ جائیں۔ شاید تم یہ کہو گے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تم کو خلافت سے محروم کر دیا۔ لیکن خدا کی قسم یہ بات نہیں۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ کیا جس سے زیادہ مناسب کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر وہ تم کو خلافت دینا بھی چاہتے تو ان کو ایسا کرنا تمہارے حق میں کچھ مفید نہ ہوتا۔ دوسرا مکالمہ اس سے زیادہ مفید ہے کچھ باتیں تو وہی ہیں جو پہلے مکالمہ میں گزریں کچھ نئی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں : حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : کیوں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہارے نسبت میں بعض باتیں سنا کرتا تھا، لیکن میں نے اس خیال سے اس کی تحقیق نہیں کی کہ تمہاری عزت میری آنکھوں میں کم نہ ہو جائے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : وہ کیا باتیں ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ لوگوں نے ہمارے خاندان سے خلافت حسداً ظلماً چھین لی۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ظلماً کی نسبت تو میں نہیں کہہ سکتا، کیونکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں۔ لیکن حسداً تو اس میں تعجب کیا ہے۔ ابلیس نے آدم پر حسد کیا اور ہم لوگ آدم ہی کی اولاد ہیں پھر محسود ہوں تو کیا تعجب ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : افسوس خاندان بنی ہاشم کے دلوں سے پرانے رنج اور کینے نہ جائیں گے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ایسی بات نہ کہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی ہاشمی ہی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : اس تذکرے کو جانے دو۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : بہت مناسب۔ (دیکھو تاریخ طبری 8 تا 2771) ان مکالمات سے علاوہ اصل واقعہ کے تم اس بات کا بھی اندازہ کر سکو گے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک عہد میں لوگ کس دلیری اور بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ اور یہ زیادہ تر اسی وجہ سے تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود آزادی اور حق گوئی کو قوم میں پھیلانا چاہتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کا انہوں نے مختلف موقعوں پر اظہار بھی کر دیا تھا۔ چنانچہ طبری وغیرہ میں ان کے ریمارکس کس بتفصیل مذکور ہیں۔ مذکورہ بالا بزرگوں میں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سب سے بہتر جانتے تھے۔ لیکن بعض اسباب سے ان کی نسبت قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ (طبری 7)۔