الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مدتوں غور کیا تھا۔ اور اکثر سوچا کرتے تھے۔ بار بار لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھا کہ سب سے الگ متفکر بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خلافت کے باب میں غلطاں و پیچاں ہیں۔ مدت کے غور فکر پر بھی ان کے انتخاب کی نظر کسی شخص پر جمتی نہ تھی۔ بارہا ان کے منہ سے بیساختہ آہ نکل گئی۔ کہ "افسوس بار گراں کا کوئی اٹھانے والا نظر نہیں آتا۔ " تمام صحابہ میں اس وقت چھ شخص تھے جن پر انتخاب کی نگاہ پڑ سکتی تھی، علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد بند ابھی وقاص، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سب میں کچھ نہ کچھ کمی پاتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور بزرگوں کی نسبت جو خوردہ کیریاں کیں، گو ہم نے ان کو ادب سے نہیں لکھا لیکن ان میں اجئے کلام نہیں البتہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق جو نکتہ چینی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی عام تاریخوں میں منقول ہے۔ یعنی یہ کہ ان کے مزاج میں ظرافت ہے۔ یہ ایک خیال ہی خیال معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظریف تھے مگر اسی قدر جتنا لطیف المزاج بزرگ ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تعلقات قریش کے ساتھ کچھ ایسے پیچ در پیچ تھے کہ قریش کسی طرح ان کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ علامہ طبری نے اس معاملے کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیالات مکالمہ کی صورت میں نقل کئے ہیں۔ ہم ان کو اس موقع پر اس لئے درج کر رہے ہیں کہ اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیالات کا راز سربستہ معلوم ہو جائے گا۔ مکالمہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔ جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم قبیلہ اور طرفدار تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : کیوں عبد اللہ بن عباس! علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں شریک ہوئے ؟ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : میں نہیں جانتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : تمہارے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچیرے بھائی ہو۔ پھر تمہاری قوم تمہاری طرفدار کیوں نہیں ہوئی؟ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : میں نہیں جانتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ : لیکن میں جانتا ہوں، تمہاری قوم تمہارا سردار ہونا گوارا نہیں کرتی تھی۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ : کیوں ؟