الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
غرض وفات کے وقت جب لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ " ان چھ شخصوں میں جس کی نسبت کثرت رائے ہو وہ خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قوم اور ملک کی بہبودی کا جو خیال تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ عین کرب و تکلیف کی حالت میں جہاں تک ان کی قوت اور حواس نے یاوری کی اسی دھن میں مصروف رہے۔ لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ " جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ پانچ فرقوں کے حقوق کا نہایت خیال رکھے۔ مہاجرین، انصار، اعراب و اہل عرب جو اور شہروں میں جا کر آباد ہو گئے ہیں۔ اہل ذمہ (یعنی عیسائی، یہودی، پارسی جو اسلام کی رعایا تھے )۔ " پھر ہر ایک کے حقوق کی تصریح کی، چنانچہ اہل ذمہ کے حق میں جو الفاظ کہے وہ یہ تھے " میں خلیفہ وقت کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ خدا کی ذمہ داری اور رسول اللہ کی ذمہ داری کی لحاظ رکھے۔ یعنی اہل ذمہ سے جو اقرار ہے وہ پورا کیا جائے۔ ان کے دشمنوں سے لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔ " قوم کے کام سے فراغت ہو چکی تو اپنے ذاتی مطالب پر توجہ کی۔ عبد اللہ اپنے بیٹھے کو بلا کر کہا کہ مجھ پر کس قدر قرض ہے۔ معلوم ہوا کہ چھیاسی ہزار درہم، فرمایا کہ میرے متروکہ سے ادا ہو سکے تو بہتر ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اور اگر وہ بھی پورا نہ کر سکیں توکل قریش سے۔ لیکن قریش کے علاوہ اوروں کو تکلیف نہ دینا۔ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ (دیکھو کتاب المناقب باب قصۃ البیعہ والاتفاق علی عثمان) لیکن عمر بن شیبہ نے کتاب المدینہ میں بسند صحیح روایت کیا ہے کہ نافع جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام تھے ، کہتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قرض کیونکر رہ سکتا تھا۔ حالانکہ ان کے ایک وارث نے اپنے حصہ وراثت کو ایک لاکھ میں بیچا تھا۔ (دیکھو فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 )۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر چھیاسی ہزار کا قرض ضرور تھا۔ لیکن وہ اس طرح ادا کیا گیا کہ ان کا مسکونہ مکان بیچ ڈالا گیا۔ جس کو امیر معاویہ نے خریدا۔ یہ مکان باب السلام اور باب رحمت کے بیچ میں واقع تھا۔ اور اس مناسبت سے کہ اس سے قرض ادا کیا گیا، ایک مدت تک دار القضا کے نام سے مشہور رہا۔ چنانچہ " خلاصۃ الوفانی اخبار دار المصطفیٰ" میں یہ واقعہ بتفصیل مذکور ہے۔ (دیکھو کتاب مذکور مطبوعہ مصر – 129)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین دن کے بعد انتقال کیا۔ اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے۔ نماز جنازہ صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی۔ حضرت عبد الرحمٰن، حضرت علی، حضرت عثمان، طلحہ، سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر میں اُتارا اور وہ آفتاب عالمتاب خاک میں چھپ گیا۔ الفاروق