الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کی نماز کو نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے کچھ لوگ اس کام پر مقرر تھے کہ جب جماعت کھڑی ہو تو صفیں درست کریں۔ جب صفیں درست ہو جاتیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لاتے تھے اور امامت کراتے تھے۔ اس دن بھی حسب معمول صفیں درست ہو چکیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ امامت کے لئے برھے۔ اور جوں ہی نماز شروع کی، فیروز نے دفعتہً گھات میں سے نکل کر چھ وار کئے جن میں ایک ناف کے نیچے پڑا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً عبد الرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا۔ اور خود زخم کے صدمہ سے گر پڑے۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے بسمل پڑے تھے۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا لیکن بالآخر پکڑا گیا، اور ساتھ ہی اس نے خود کُشی کر لی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگ گھر لائے۔ سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ " میرا قاتل کون تھا۔ " لوگوں نے کہا کہ " فیروز" فرمایا کہ الحمد اللہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو۔ لوگوں کو خیال تھا کہ زخم چنداں کاری نہیں۔ غالباً شفا ہو جائے۔ چنانچہ ایک طبیب بلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ پلایا۔ اور دونوں چیزیں زخم کی راہ سے باہر نکل آئیں۔ اس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ وہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ لوگوں نے ان سے کہا کہ " اب آپ اپنا ولی عہد منتخب کر جائیے۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ اپنے فرزند کو بلا کر کہا کہ " عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جاؤ اور کہو کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ عبد اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے ، وہ رو رہی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ " اس جگہ کو میں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن آج میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پر ترجیح دوں گی۔ " عبد اللہ واپس ائے۔ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر کی۔ بیٹے کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا کہ کیا خبر لائے ؟ انہوں نے کہا کہ جو آپ چاہتے تھے۔ فرمایا " یہی سب سے بڑی آرزو تھی۔ " اس وقت اسلام کے حق میں جو سب سے اہم کام تھا وہ ایک خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔ تمام صحابہ بار بار حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کرتے تھے کہ اس مہم کو آپ طے کر جائیے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے معاملہ پر