الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک مقام تھا۔ وہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔ ایک بڑی تدبیر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کی کہ فارس میں جو اسلامی فوجیں موجود تھیں ان کو لکھا کہ ایرانی اس طرف سے نہاوند کی طرف بڑھنے نہ پائیں۔ اس طرح دشمن ایک بہت بڑی مدد سے محروم رہ گیا۔ عجم نے نعمان کے پاس سفارت کے لئے پیغام بھیجا۔ چنانچہ مغیرہ بن شعبہ جو پہلے بھی اس کام کو انجام دے چکے تھے ، سفیر بن کر گئے۔ عجم نے بڑی شان سے دربار آراستہ کیا۔ مردان شاہ کو تاج پہنا کر تخت زریں پر بٹھایا۔ تخت کے دائیں بائیں ملک ملک کے شہزادے دیبائے زرکش کی قبائیں سر پر تاج زر ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہن کر بیٹھے۔ ان کے پیچھے دور دور تک سپاہیوں کی صفیں قائم کیں۔ جن کی برہنہ تلواروں سے آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ مترجم کے ذریعے گفتگو شروع ہوئی۔ مردان شاہ نے کہا کہ اے اہل عرب سب سے بدبخت، سب سے زیادہ فاقہ مست، سب سے زیادہ ناپاک قوم جو ہو سکتی ہے تم ہو۔ یہ قدر انداز جو میرے تخت کے گرد کھڑے ہیں ابھی تمہارا فیصلہ کر دیتے۔ لیکن مجھ کو یہ گوارا نہ تھا کہ ان کے تیر تمہارے ناپاک خون میں آلودہ ہوں۔ اب بھی اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو میں تم کو معاف کر دوں گا۔ " مغیرہ نے کہا : " ہاں ہم لوگ ایسے ہی ذلیل تھے۔ لیکن اس ملک میں آ کر ہم کو دولت کا مزہ پڑ گیا۔ اور یہ مزہ ہم اسی وقت چھوڑیں گے جب ہمارے لاشیں خاک پر بچھ جائیں۔ غرض سفارت بے حاصل گئی۔ اور دونوں طرف جنگ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ نعمان نے میمنہ اور میسرہ پر حذیفہ اور سوید بن مقرن کو مجردہ پر قعقاع کو مقرر کیا۔ ساقہ پر مجاشع متعین ہوئے۔ ادھر میمنہ پر زروک اور میسرہ پر بہمن تھا۔ عجمیوں نے میدان جنگ میں پہلے سے ہی ہر طرف گوکھرو بچھا دیئے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو آگے بڑھنا مشکل ہوتا تھا۔ اور عجمی جب چاہتے تھے شہر سے نکل کر حملہ آور ہو جاتے تھے۔ نعمان نے یہ حالت دیکھ کر افسروں کو جمع کیا۔ اور سب سے الگ الگ رائے لی۔ طلیحہ بن خالد الاسدی کی رائے کے موافق فوجیں آراستہ ہو کر شہر سے چھ سات میل کے فاصلے پر ٹھہریں اور قعقاع کو تھوڑی سی فوج دے کر بھیجا کہ شہر پر حملہ آور ہوں۔ عجمی بڑے جوش سے مقالہ کو نکلے اور اس بندوبست کے لئے کہ کوئی شخص پیچھے نہ ہٹنے پائے ، جس قدر بڑھتے آتے تھے گوکھرو بچھاتے آتے تھے۔ قعقاع نے لڑائی چھیڑ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ عجمی برابر بڑھتے چلے آئے۔ یہاں تک کہ گوکھرو کی سرحد سے نکل ائے۔ نعمان نے ادھر جو فوجیں جما رکھی تھیں۔ موقع کا انتظار کر رہی تھیں، جونہی عجمی زد پر آئے ، انہوں نے حملہ کرنا چاہا۔ لیکن نعمان نے روکا۔ عجمی جو تیر برسا رہے تھے اس سے سینکڑوں مسلمان کام آئے۔ لیکن افسر کی یہ اطاعت تھی زخم کھاتے تھے اور ہاتھ روکے کھڑے تھے۔ مغیرہ بار بار کہتے تھے کہ فوج بیکار ہوئی جاتی ہے۔ اور موقع ہاتھ سے نکلا جاتا ہے۔ لیکن نعمان اس خیال سے دوپہر کے ڈھلنے کا انتظار کر رہے تھے کہ رسول اللہ جب دشمن پر حملہ کرتے تھے تو اسی وقت کرتے تھے۔ غرض دوپہر ڈھلی تو نعمان نے دستور کے موافق تین نعرے مارے۔ پہلے نعرے پر فوج ساز و سامان سے درست ہو گئی۔ دوسرے پر لوگوں نے تلواریں تول لیں۔ تیسرے پر دفعتہً حملہ کیا۔ اور اس بے جگری سے ٹوٹ کر گرے کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ میدان میں اس قدر خون بہا کہ گھوڑوں کے پاؤں پھسل پھسل جاتے تھے۔ چنانچہ