الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایران کی عام تسخیر کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اب تک جو لڑائیاں ہوئیں وہ صرف اپنے ملک کی حفاظت کے لئے تھیں۔ عراق کا البتہ ممالک محروسہ میں اضافہ کر لیا گیا تھا۔ لیکن وہ درحقیقت عرب کا ایک حصہ تھا۔ کیونکہ اسلام سے پہلے اس کے ہر حصہ میں عرب آباد تھے۔ عراق سے آگے بڑھ کر جو لڑائیاں ہوئیں وہ عراق کے سلسلہ میں خود بخود پیدا ہوتی گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود فرمایا کرتے تھے کہ " کاش ہمارے اور فارس کے بیچ میں آگ کا پہاڑ ہوتا تا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کر سکتے نہ ہم ان پر چڑھ کر جا سکتے۔ " لیکن ایرانیوں کو کسی طرح چین نہیں آتا تھا۔ وہ ہمیشہ نئی فوجیں تیار کر کے مقابلے پر آتے تھے اور جو ممالک مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے وہاں غدر کروا دیا کرتے تھے۔ نہاوند کے معرکہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس پر خیال ہوا۔ اور اکابر صحابہ کو بلا کر پوچھا کہ ممالک مفتوحہ میں بار بار بغاوت کیوں ہو جاتی ہے۔ لوگوں نے کہا جب تک یزدگرد ایران کی حدود سے نکل نہ جائے ، یہ فتنہ فرو نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جب تک ایرانیوں کو یہ خیال رہے گا کہ تخت کیانی کا وارث موجود ہے ، اس وقت ان کی امیدیں منقطع نہیں ہو سکتیں۔" اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عام لشکر کشی کا ارادہ کیا۔ اپنے ہاتھ سے متعدد علم تیار کئے۔ اور جدا جدا ممالک کے نام سے نامزد کر کے مشہور افسروں کے پاس بھیجے۔ چنانچہ خراسان کا علم احتف بن قیس کو، سابورو اردشیر کا مجاشع بن مسعود کو، اصطخر کا عثمان بن العاص الشقفی کو، افساء کا ساریہ بن رہم الکنافی کو، کرمان کا سہیل بن عدی کو، سیستان کا عاصم بن عمرو کو، مکران کا حکم بن عمیر التغسلبی کو، آذر بائیجان کا عتبہ کو عنایت کیا۔ 21 ہجری میں یہ افسر اپنے اپنے متعینہ ممالک کی طرف روانہ ہوئے۔ چنانچہ ہم ان کی الگ الگ ترتیب کے ساتھ لکھتے ہیں۔ فتوحات کے سلسلے میں سب سے پہلے اصفہان کا نمبر ہے۔ 21 ہجری میں عبد اللہ بن عبد اللہ نے اس صوبہ پر چڑھائی کی، یہاں کے رئیس نے جس کا نام استندرا تھا۔ اصفہان کے نواح میں بڑی جمیعت فراہم کی تھی جس کے ہراول پر شہربرز جادویہ ایک پرانہ تجربہ کار افسر تھا۔ دونوں فوجیں مقابل ہوئیں تو جادویہ نے میدان میں آ کر پکارا کہ جس کا دعویٰ ہو، تنہا میرے مقابلہ کو آئے۔ عبد اللہ خود مقابلے کو آئے۔ جادویہ مارا گیا اور ساتھ ہی لڑائی کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ استندار نے معمولی شرائط پر صلح کر لی۔ عبد اللہ نے آگے بڑھ کر "جے " یعنی خاص اصفہان کا محاصرہ کیا۔ فاذوسفان یہاں کے رئیس نے پیغام بھیجا کہ دوسروں کی جانیں کیوں ضائع ہوں، ہم تم لڑ کر خود فیصلہ کر لیں، دونوں حریف میدان میں آئے۔ فاذوسفان نے تلوار کا وار کیا، عبد اللہ نے اس پامردی سے اس کے حملہ کا مقابلہ کیا کہ فاذوسفان کے منہ سے بے اختیار آفریں نکلی۔ اور کہا کہ میں تم سے نہیں لڑنا چاہتا۔ بلکہ شہر اس شرط پر حوالہ کرتا ہوں کہ باشندوں میں سے جو چاہے جزیہ دے کر شہر میں رہے اور جو چاہے نکل جائے۔ عبد اللہ نے یہ شرط منظور کر لی۔ اور معاہدہ صلح لکھ دیا۔