الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
حکم دیا کہ کل کوچ ہے۔ حضرت ابو عبیدہ چونکہ تقدیر کے مسئلہ پر نہایت سختی کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے۔ ان کو نہایت غصہ آیا۔ اور طیش میں آ کر کہا افراد من قدر اللہ یعنی اے عمر! تقدیر الہٰی سے بھاگتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی سخت کلامی کو گوارا کیا اور کہا۔ افر من قضاء اللہ الی قضاء اللہ یعنی ہاں تقدیر الہٰی سے بھاگتا ہوں۔ مگر بھاگتا بھی تقدیر الہٰی کی طرف ہوں۔ غرض خود مدینہ چلے آئے اور ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ مجھ کو تم سے کام ہے کچھ دنوں کے لیے یہاں آ جاؤ۔ ابو عبیدہ کو خیال ہوا کہ وبا کے خوف سے بلایا ہے۔ جواب میں لکھ کر بھیجا کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو گا۔ میں مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی بچانے کے لیے یہاں سے ٹل نہیں سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خط پڑھ کر روئے اور لکھا کہ فوج جہاں اتری ہے وہ نشیب اور مرطوب جگہ ہے۔ اس لئے کوئی عمدہ موقع تجویز کر کے وہاں اٹھ جاؤ۔ ابو عبیدہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور جابیہ میں جا کر مقام کیا۔ جو آب و ہوا کی خوبی میں مشہور تھا۔ جابیہ پہنچ کر ابو عبیدہ بیمار پڑھے۔ جب زیادہ شدت ہوئی تو لوگوں کو جمع کیا۔ اور نہایت پراثر الفاظ میں وصیت کی۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اور چونکہ نماز کا وقت آ چکا تھا، حکم دیا کہ وہی نماز پڑھائیں۔ ادھر نماز ختم ہوئی ادھر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بیماری اسی طرح زوروں پر تھی اور فوج میں انتشار پھیلا ہوا تھا۔ عمرو بن العاص نے لوگوں سے کہا کہ یہ وبا انہی بلاؤں میں سے ہے جو بنی اسرائیل کے زمانے میں مصر پر نازل ہوئی تھیں۔ اس لیے یہاں سے بھاگنا چاہیے۔ معاذ نے سنا تو منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھا اور کہا کہ یہ وہ بلا نہیں ہے۔ بلکہ خدا کی رحمت ہے۔ خطبہ کے بعد خیمہ میں آئے تو بیٹے کو بیمار پایا۔ نہایت استقلال کے ساتھ کہا۔ یا بنی الحق من ربک فلا تکونن من الممترین۔ یعنی اے فرزند یہ خدا کی طرف سے حق ہے۔ دیکھ شبہ میں نہ پڑھا۔ بیٹے نے جواب دیا ستجلنی انشاء اللہ من الصٰبرین یعنی خدا نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر پائیں گے۔ یہ کہہ کر انتقال کیا۔ معاذ بیٹے کو دفنا کر آئے تو خود بیمار پڑ گئے۔ عمرو بن العاص کو خلیفہ مقرر کیا اور اس خیال سے کہ زندگی خدا کے قرب کا حجاب تھی بڑے اطمینان اور مسرت سے جان دی۔ مذہب کا نشہ بھی عجیب چیز ہے۔ وبا کا وہ زور تھا اور ہزاروں آدمی لقمہ اجل ہوتے جاتے تھے لیکن معاذ اس کو خدا کی رحمت سمجھا کئے۔ اور کسی قسم کی کوئی تدبیر نہ کی، لیکن عمرو بن العاص کو یہ نشہ کم تھا۔ معاذ کے مرنے کے ساتھ انہوں نے مجمع عام میں خطبہ پڑھا اور کہا کہ وبا جب شروع ہوتی ہے تو آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ اس لئے تمام فوج کو یہاں سے اٹھ کر پہاڑوں پر جا رہنا چاہیے۔ اگرچہ ان کی رائے بعض صحابہ کو جو معاذ کے ہم خیال تھے ناپسند ائی، یہاں تک کہ ایک بزرگ نے علانیہ کہا کہ تو جھوٹ کہتا ہے۔ تاہم عمرو نے اپنی رائے پر عمل کیا۔ فوج ان کے حکم کے مطابق ادھر ادھر پہاڑوں پر پھیل گئی