الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شام کی فتوحات اور 17 ہجری (638 عیسوی) کے واقعات میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معزول ہونا ایک اہم واقعہ ہے۔ عام مؤرخین کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عنان خلافت ہاتھ میں لینے کے ساتھ پہلا جو حکم دیا وہ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معزولی تھی۔ ابن الاثیر وغیرہ سب یہی لکھتے آئے ہیں۔ لیکن یہ ان کی سخت غلطی ہے۔ افسوس ہے کہ ابن الاثیر کو خود اختلاف بیانی کا بھی خیال نہیں۔ خود ہی 13 ہجری کے واقعات میں خالد کا معزول ہونا لکھا ہے اور خود ہی 17 ہجری کے واقعات میں ان کی معزولی کا الگ عنوان قائم کیا ہے اور دونوں جگہ بالکل ایک سے واقعات نقل کر دیئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بعض بے اعتدالیوں کی وجہ سے مدت سے ناراض تھے۔ تاہم آغاز خلافت میں ان سے کچھ تعرض کرنا نہیں چاہا۔ لیکن چونکہ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ وہ کاغذات حساب دربار خلافت کو نہیں بھیجتے تھے۔ اس لئے ان کو تاکید لکھی کہ آئندہ سے اس کا خیال رکھیں۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں لکھا کہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے ایسا ہی کرتا آیا ہوں۔ اور اب اس کے خلاف نہیں کر سکتا۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی یہ خود مختاری کیونکر پسند ہو سکتی تھی۔ اور وہ بیت المال کی رقم کو اس طرح بدریغ کیونکر کسی کے ہاتھ میں دے سکتے تھے۔ چنانچہ خالد کو لکھا کہ تم اسی شرط پر سپہ سالار رہ سکتے ہو کہ فوج کے مصارف کا حساب ہمیشہ بھیجتے رہو۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شرط کو نامنظور کیا۔ اور اس بناء پر وہ سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر دیئے گئے۔ چنانچہ اس واقعہ کو حافظ ابن حجر نے کتاب الاصابہ میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احوال میں تفصیل سے لکھا ہے۔ بایں ہمہ ان کو بالکل معزول نہیں کیا۔ بلکہ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ماتحت کر دیا۔ اس کے بعد 17 ہجری (638 عیسوی) میں واقعہ پیش آیا کہ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شاعر کو دس ہزار روپے انعام میں دے دیئے۔ پرچہ نویسوں نے اسی وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پرچہ لکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ خالد نے یہ انعام اپنی گرہ سے دیا تو اسراف کیا۔ اور بہت المال سے دیا تو خیانت کی۔ دونوں صورتوں میں وہ معزولی کے قابل ہیں۔ خالد جس کیفیت سے معزول کئے گئے وہ سننے کے قابل ہے۔ قاصد نے جو معزولی کا خط لے کر آیا تھا۔ مجمع عام میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ " یہ انعام تم نے کہاں سے دیا۔ " خالد اگر اپنی خطا کا اقرار کر لیتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم تھا کہ ان سے درگزر کی جائے۔ لیکن وہ خطا کے اقرار کرنے پر راضی نہ تھے۔ مجبوراً قاصد نے معزولی کی علامت کے طور پر ان کے سر سے ٹوپی اتار لی۔ اور ان کی سرتابی کی سزا کے لئے انہی کے عمامہ سے ان کی گردن باندھی۔ یہ واقعہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں کہ ایک ایسا سپہ سالار جس کی نظیر تمام اسلام میں کوئی شخص موجود نہ تھا۔ اور جس کی تلوار نے عراق و شام کا