الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پوشاک اور ظاہری شان و شوکت سے عجمی معلوم ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت غصہ آیا۔ گھوڑے سے اتر پڑے اور سنگریزے اٹھا کر ان کی طرف پھینکے کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اختیار کر لیں۔ ان لوگوں نے عرض کی کہ " قباؤں کے نیچے ہتھیار ہیں۔ " (یعنی سپہ گری کا جوہر ہاتھ سے نہیں دیا ہے ) فرمایا تو کچھ مضائقہ نہیں (طبری – 21)۔ شہر کے قریب پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کرچاروں طرف نگاہ ڈالی۔ غوطہ کا دلفریب سبزہ زار اور دمشق کے شاندار مکانات سامنے تھے۔ دل پر ایک خاص اثر ہوا۔ عبر کے لہجہ میں یہ آیت پڑھی کم ترکوا امن جنت و عچون الخ پھر چیغہ کے چند حسرت انگیز اشعار پڑھے۔ جابیہ میں دیر تک قیام رہا۔ اور بیت المقدس کا معاہدہ بھی یہیں لکھا گیا۔ وہاں کے عیسائیوں کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد کی خبر پہلے سے پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ رئیسان شہر کا ایک گروہ ان سے ملنے کے لیے دمشق کو روانہ ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوج کے حلقے میں بیٹھے تھے کہ دفعتہً کچھ سوار آئے جو گھوڑے اڑاتے چلے آتے تھے اور کمر میں تلواریں چمک رہی تھیں۔ مسلمانوں نے فوراً ہتھیار سنبھال لئے۔ حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا خیر ہے ؟ لوگوں نے سواروں کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فراست سے سمجھا کہ بیت المقدس کے عیسائی ہیں۔ فرمایا گھبراؤ نہیں۔ یہ لوگ امان طلب کرنے آئے ہیں۔ غرض معاہدہ صلح لکھا گیا۔ بڑے بڑے معزز صحابہ کے دستخط ہو گئے۔ (یہ طبری کی روایت ہے۔ بلاذری اور ازدی نے لکھا ہے کہ معاہدہ صلح بیت المقدس میں لکھا گیا ہے کہ اس معاہدے کو بتمامہا ہم نے اس کتاب کے دوسرے حصہ میں نقل کیا ہے۔ (دیکھو اس کتاب کا دوسرا حصہ)۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المقدس کا ارادہ کیا۔ گھوڑا جو سواری میں تھا اس کے سم گھس کر بیکار ہو گئے اور رک رک کر قدم رکھتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دیکھ کر اتر پڑے۔ لوگوں نے ترکی نسل کا ایک عمدہ گھوڑا حاضر کیا۔ گھوڑا شوخ اور چالاک تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوار ہوئے تو کلیل کرنے لگا۔ فرمایا " کمبخت یہ غرور کی چال تو نے کہاں سیکھی" یہ کہہ کر اتر پڑے اور پیادہ چلے۔ بیت المقدس قریب آیا تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سرداران فوج استقبال کو آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لباس اور ساز و سامان جس معمولی حیثیت کا تھا۔ اس کو دیکھ کر مسلمانوں کو شرم آتی تھی کہ عیسائی اپنے دل میں کیا کہیں گے۔ چنانچہ لوگوں نے ترکی گھوڑا اور قیمتی پوشاک حاضر کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لئے یہی بس ہے۔ " غرض اس حال سے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے مسجد گئے ، محراب داؤد کے پاس پہنچ کر سجدۂ داؤد کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا۔ پھر عیسائیوں کے گرجا میں آئے اور ادھر ادھر پھرتے رہے۔