الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی بہ نسبت تجھ پر شجاعت کا زیادہ حق ہے۔ تیری فوج میں سے ایک سپاہی بھی اس میدان میں تجھ سے بازی لے گیا تو تیرے لئے شرم کی بات ہے۔ " شرجیل کا یہ حال تھا کہ رومیوں کا چاروں طرف سے نرغہ تھا اور یہ بیچ میں پہاڑ کی طرح کھڑے تھے۔ قرآن کی یہ آیت " ان اللہ اشعری من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقطون و یقطون" پڑھتے تھے اور نعرہ مارتے تھے کہ خدا کے ساتھ سودا کرنے والے اور خدا کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں؟ یہ آواز جس کے کان میں پڑی بے اختیار لوٹ پڑا۔ یہاں تک کہ اکھڑی ہوئی فوج سنبھل گئی اور شرجیل نے ان کو لے کر اس بہادری سے جنگ کی کہ رومی جو لڑتے چلے آتے تھے بڑھنے سے رک گئے۔ ادھر عورتیں خیموں سے نکل نکل کر فوج کی پشت پر آ کھڑی ہوئیں۔ اور چلا کر کہتی تھیں کہ " میدان سے قدم ہٹایا تو پھر ہمارا منہ نہ دیکھنا۔ " لڑائی کے دونوں پہلو اب تک برابر تھے۔ بلکہ غلبہ کا پلہ رومیوں کی طرف تھا۔ دفعتہً قیس بن ہبیرہ، جو کو خالد نے فوج کا ایک حصہ دے کر میسرہ کی پشت پر متعین کر دیا تھا، عقب سے نکلے اور طرح ٹوٹ کر گرے کہ رومی سرداروں نے بہت سنبھالا مگر فوج سنبھل نہ سکی۔ تمام صفیں ابتر ہو گئیں اور گھبرا کر پیچھے ہٹیں۔ ساتھ ہی سعید بن زید نے قلب سے نکل کر حملہ کر دیا۔ رومی دور تک ہٹتے چلے گئے۔ یہاں تک میدان کے سرے پر جو نالہ تھا اس کے کنارے تک آ گئے۔ تھوڑی دیر میں ان کی لاشوں نے وہ نالہ بھر دیا۔ اور میدان خالی ہو گیا۔ اس لڑائی کا یہ واقعہ (یہ تمام واقعہ فتوح البلدان میں مذکور ہے ) یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی، حباش بن قیس جو ایک بہادر سپاہی تھے ، بڑی جانبازی سے لڑ رہے تھے ، اسی اثنا میں کسی نے ان کے پاؤں پر تلوار ماری اور ایک پاؤں کٹ کر الگ ہو گیا۔ حباش کو خبر تک نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ " میرا پاؤں کیا ہوا؟" ان کے قبیلے کے لوگ اس واقعہ ہر ہمیشہ فخر کرتے تھے۔ چنانچہ سوار بن ادنٰی نامی ایک شاعر نے کہا ہے : ومنا ابن عناب و ناشدر جلہ و منا للذی اوسی الیٰ الحی حاجباً رومیوں کے جس قدر آدمی مارے گئے ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ طبری اور۔ ۔ ۔ ۔ نے لاکھ سے زیادہ تعداد بیان کی ہے۔ بلازری نے ستر ہزار لکھا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار کا نقصان ہوا۔ جن میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سعید وغیرہ تھے۔ قیصر انطاکیہ میں تھا کہ شکست کی خبر پہنچی۔ اس وقت قسطنطنیہ کی تیاری کی۔ چلتے وقت شام کی طرف رخ کر کے کہا " الوداع اے شام۔ "