الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کو پیچھے لگا رکھا تھا۔ دفعتہً صف چیر کر نکلے اور اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کی صفیں ابتر کر دیں۔ عکرمہ نے جو ابو جہل کے فرزند تھے اور اسلام لانے سے پہلے اکثر کفار کے ساتھ رہ کر لڑتے تھے۔ گھوڑا آگے بڑھایا اور کہا " عیسائیو! میں کسی زمانے میں (کفر کی حالت میں) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑ چکا ہوں کیا آج تمہارے مقابلہ میں میرا پاؤں پیچھے پڑ سکتا ہے۔ " یہ کہہ کر فوج کی طرف دیکھا اور کہا مرنے پر کون ،،،،،،،،،، کرتا ہے ؟ چار سو شخصوں نے جن میں ضرار بن ازور بھی تھے مرنے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ قریباً سب کے سب وہیں کٹ کر رہ گئے۔ عکرمہ کی لاش مقتولوں کے ڈھیر میں ملی۔ کچھ کچھ دم باقی تھی۔ خالد نے اپنے رانوں پر انکا سر رکھا اور گلے میں پانی ٹپکا کر کہا " خدا کی قسم عمر کا گمان غلط تھا کہ ہم شہید ہو کر نہ مریں گے۔ " (تاریخ طبری واقعہ یرموک)۔ غرض عکرمہ اور انکے ساتھ گو خود ہلاک ہو گئے۔ لیکن رومیوں کے ہزاروں آدمی برباد کر یئے۔ خالد کے حملوں نے اور بھی ان کی طاقت توڑ دی۔ یہاں تک کہ آخر ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اور خالد ان کو دباتے ہوئے سپہ سالار در۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تک پہنچ گئے۔ در۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور رومی افسروں نے آنکھوں پر رومال ڈال لئے کہ اگر یہ آنکھیں فتح کی صورت نہ دیکھ سکیں تو شکست بھی نہ دیکھیں۔ عین اس وقت جب ادھر میمنہ میں بازار قتال گرم تھا ابن ناطیر (رومیوں کے میمنہ کا سردار تھا) نے میسرہ پر حملہ کیا۔ بد قسمتی سے اس حصے میں اکثر لخم و غسان کے قبیلہ کے آدمی تھے جو شام کے اطراف میں بود و باش رکھتے تھے۔ ایک مدت سے روم کے باج گزار رہتے آئے تھے۔ رومیوں کا رعب جو دلوں میں سمایا ہوا تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ پہلے ہی حملے میں انکے پاؤں اکھڑ گئے۔ اور اگر افسروں نے بھی بے ہمتی کی ہوتی تو لڑائی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ رومی بھاگتوں کا پیچھا کرتے ہوئے خیموں تک پہنچ گئے۔ عورتیں یہ حالت دیکھ کر بے اختیار نکل پڑیں اور ان کی پامردی نے عیسائیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ فوج اگرچہ ابتر ہو گئی تھی لیکن افسروں میں سے قباث بن الحثم، سعید بند زید، یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص، شرجیل بن حسنہ داد شجاعت دے رہے تھے۔ قباث کے ہاتھ سے تلواریں اور نیزے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے جاتے تھے۔ مگر ان کے تیور پر بل نہ آیا تھا۔ نیزہ ٹوٹ کر گرتا تو کہتے کہ کوئی ہے ؟ جو اس شخص کو ہتھیار دے جس نے خدا سے اقرار کیا ہے کہ میدان جنگ سے ہٹے گا تو مر کر ہٹے گا۔ لوگ فوراً تلوار یا نیزہ ان کے ہاتھ میں لا کر دے دیتے۔ اور پھر وہ شیر کی طرح جھپٹ کر دشمن پر جا پڑتے۔ ابو الا عود گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے رکاب کی فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ " صبر و استقلال دنیا میں عزت ہے۔ اور عقبٰی میں رحمت، دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ " سعید بن زید غصہ میں گھٹنے ٹیکے ہوئے کھڑے تھے۔ رومی ان کی طرف بڑھے تو شیر کی طرح جھپٹے اور مقدمہ کے افسر کو مار گرایا۔ زید بن ابی سفیان (معاویہ کے بھائی) بڑی ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے۔ اتفاق سے ان کے باپ ابو سفیان جو فوج کو جوش دلاتے پھرتے تھے ان کی طرف سے نکلے۔ بیٹے کو دیکھ کر کہا " جان پدر، اس وقت میدان میں ایک ایک سپاہی شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے۔ تو سپہ سالار ہے اور سپاہیوں