الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہندہ حملہ کرتی ہوئی بڑھتی تھیں تو پکارتی تھیں۔ عضدو العلفان بسیوفکم۔ امیر معاویہ کی بہن جویریہ نے بھی بڑی دلیری سے جنگ کی۔ مقداد جو نہایت خوش آواز تھے فوج کے آگے آگے سورۃ انفال (جس میں جہاد کی ترغیب ہے ) تلاوت کرتے جاتے تھے۔ ادھر رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لیں کہ ہٹنے کا خیال تک نہ ائے۔ جنگ کی ابتدا رومیوں کی طرف سے ہوئی۔ دو لاکھ ٹڈی دل لشکر ایک ساتھ بڑھا۔ ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لئے آگے آگے تھے۔ اور حضرت عیسٰی کے جے پکارتے آتے تھے۔ یہ ساز و سامان دیکھ کر ایک مسلمان کی زبان سے بے اختیار نکلا اللہ اکبر کس قدر بے انتہا فوج ہے۔ خالد نے جھلا کر کہا " چپ رہ خدا کی قسم میرے گھوڑے کے سم اچھے ہوتے تو میں کہہ دیتا کہ عیسائی اتنی ہی فوج اور بڑھا لیں۔ " غرض عیسائیوں نے نہایت زور شور سے حملہ کیا اور تیروں کا مینہ برساتے بڑھے۔ مسلمان دیر تک ثابت قدم رہے لیکن حملہ زور کا تھا کہ مسلمان کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے علیحدہ ہو گیا۔ اور نہایت بے ترتیبی سے پیچھے ہٹا۔ یزیمت یافتہ ہٹتے ہٹتے حرم کے خیمہ گاہ تک پہنچ گئے۔ عورتوں کو یہ حالت دیکھ کر سخت غصہ آیا، اور خیمہ کی چوبیں اکھاڑ لیں۔ اور پکاریں کہ " نامرادو ادھر آئے تو چولوں سے تمہارا سر توڑ دیں گے " خولہ یہ شعر پڑھ کر لوگوں کو غیرت دلاتی تھیں : یاھارباً عن نسوۃ تفلیات و میت بالسھم والمنیات یہ حالت دیکھ کر معاذ بن جبل جو میمنہ کے ایک حصے کے سپہ سالار تھے گھوڑے سے کود پڑے اور کہا کہ " میں پیدل لڑتا ہوں، لیکن کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکے تو گھوڑا حاضر ہے۔ " ان کے بیٹے نے کہا " ہاں یہ حق میں ادا کروں گا۔ کیونکہ میں سوار ہو کر اچھا لڑ سکتا ہوں۔ " غرض دونوں باپ بیٹھے فوجوں میں گھسے اور دلیری سے جنگ کی کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے۔ ساتھ ہی حجاج جو قبیلہ زبیدہ کے سردار تھے ، پانسو آدمی لے کر بڑھے اور عیسائیوں کا جو مسلمانوں کا تعاقب کرتے چلے آتے تھے اگا روک لیا۔ میمنہ میں قبیلہ ازد شروع حملہ سے ثابت قدم رہا تھا۔ عیسائیوں نے لڑائی کا سارا زور ان پر ڈالا لیکن وہ پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ جنگ میں یہ شدت تھی کہ فوج میں ہر طرف سر ہاتھ بازو کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے لیکن ان کے پائے ثبات کی لغزش نہیں ہوتی تھی۔ عمرو بن الطفیل جو قبیلہ کے سردار تھے تلوار مارتے جاتے تھے کہ ازدیو دیکھنا۔ مسلمانوں پر تمہاری وجہ سے داغ نہ آئے۔ بڑے بڑے رومی بہادر انکے ہاتھ سے مارے گئے اور آخر خود شہادت حاصل کی۔