الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور کہا کہ " تم نے سنا اہل عرب کا دعویٰ ہے کہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جاؤ ان کے حملہ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ تم کو ان کی غلامی منظور ہے ؟ تمام افسروں نے بڑے جوش سے کہا کہ " ہم مر جائیں گے مگر یہ ذلت گوارا نہیں ہو سکتی۔ " صبح ہوئی تو رومی اس جوش اور سر و سامان سے نکلے کہ مسلمانوں کو حیرت ہوئی۔ خالد نے یہ دیکھ کر عرب کے عام قاعدے کے خلاف نئے طور سے فوج آرائی کی۔ فوج جو 30 – 35 ہزار تھی اس کے 36 حصے کئے اور آگے پیچھے نہایت ترتیب کے ساتھ اس طرح صفیں قائم کیں، قلب فوج ابو عبیدہ کو دیا۔ میمنہ پر عمرو بن العاص اور شرجیل مامور ہوئے۔ میسرہ یزید بن ابی سفیان کی کمان میں تھا۔ ان کے علاوہ ہر صف پر الگ الگ جو افسر متعین کئے چن چن کر ان لوگوں کو متعین کیا جو بہادری اور فنون جنگ میں شہرت عام رکھتے تھے۔ خطباء جو اپنے زور کلام سے لوگوں میں ہل چل ڈال دیتے تھے اس خدمت پر مامور ہوئے کہ پرجوش تقریروں سے فوج کو جوش دلائیں۔ انہی میں ابی سفیان بھی تھے جو فوجوں کے سامنے یہ الفاظ کہتے پھرتے تھے۔ الا الک، زارۃ العرب و انصار الا سلام و انھم زارۃ الروم و انصار الشرک اللھم ان ھذا یومن آیاتک اللھم انزل نصرک علی عبادک۔ عمرو بن العاص کہتے پھرتے تھے۔ ایھا الناس غضوا ابصار کم واشر عوا الرماح والزموا مراکز کم فانا حمل عدوکم فامھلوھم حتی اذا رکبوا اطراف الاسنۃ و ثبوا فی وجوھھم و ثوب الاسد۔ " یارو! نگاہیں نیچی رکھو برچھیاں تان لو، اپنی جگہ پر جمے رہو، پھر جب دشمن حملہ آور ہوں تو آنے دو۔ یہاں تک کہ جب برچھیوں کی نوک پر آ جائیں تو شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑو۔ فوج کی تعداد اگرچہ کم تھی یعنی 30 – 35 ہزار سے زیادہ آدمی نہ تھے۔ لیکن تمام عرب میں منتخب تھے۔ ان میں سے خاص وہ بزرگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جمال مبارک دیکھا تھا۔ ایک ہزار تھے ، سو بزرگ وہ تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمرکاب تھے۔ عرب کے مشہور قبائل میں سے دس ہزار سے زیادہ صرف ازد کے قبیلے کے تھے۔ حمیر کی ایک بڑی جماعت تھی۔ ہمدان، کولان، خم، جذام، وغیرہ کے مشہور بہادر تھے۔ اس معرکہ کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ عورتیں تھی اس میں شریک تھیں اور نہایت بہادری سے لڑیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں