دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
عرضِ مرتب ’’دعوت وتبلیغ‘‘ امر بالمعروف نہی عن المنکر ، یعنی اچھائیوں کے پھیلانے برائیوں سے روکنے کی کوشش کرنا ، اس عمل کی اہمیت وافادیت کا کون انکار کرسکتا ہے ۔ قرآن وحدیث میں جابجا اس کی تاکید فرمائی گئی ہے ۔یہی وہ عمل ہے کہ امت کے ہرفرد کو اس کا مکلف بنایا گیا ہے ایک جگہ تو امت کے بنیادی مقاصد میں اسی عمل کو قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہے ۔ ’’کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر‘‘ ترجمہ: تم لوگ سب سے اچھی جماعت ہوکر وہ جماعت عام لوگوں کے (نفع وہدایت پہنچانے کے )لئے ظاہر کی گئی ہے (اور نفع پہنچانے کی صورت یہ ہے کہ اہتمام کے ساتھ )تم لوگ نیک کاموں کو بتلاتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔(بیان القرآن) لیکن ظاہر ہے کہ جو عمل جتنا مہتم بالشان ہوگا ۔اتنی ہی اس کی نزا کتیں (اصول، حدود ، قیود) بھی ہوں گے ۔دعوت تبلیغ بھی کوئی ایسا عمل نہیں کہ کیف مااتفق جس طرح بن پڑے اندھادھندشروع کردیا جائے ۔ اس کے اصول وقواعد ہیں ۔کچھ ضروری آداب ہیں جن کی رعایت کئے بغیر دعوت تبلیغ سے بجائے فائدے کے نقصان بھی ہوجاتا ہے ۔ ’’دعوت‘‘ اصول کی بھی ہوتی ہے ، فروع کی بھی، مسائل کی بھی ، عقائد کی بھی ،اپنوں کو بھی ، غیروں کو بھی ، دعوت عامہ بھی ہوتی ہے ،خاصہ بھی ، انفرادی بھی ، اجتماعی بھی ۔ الغرض: یہ مستقل موضوع ہے ۔جس کے مختلف اقسام ضروری آداب ہیں ،ہر داعی کو جس سے واقف ہونا ضروری ہے ۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ۔ واقعۃً اللہ نے آپ کو حکیم بنایا تھا ۔آپ کے ارشادات حکمت کی باتوں سے لبریز ہیں