دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
کے یہ حالات ہیں ۔اس کے اندر ایسی ایسی آسائشیں ہیں ، اور اگر نہیں پڑھوگے تودوزخ میں جائوگے ،جس کے یہ یہ (ہولناک) واقعات ہیں ۔تویہ مضمون ترغیب وترہیب کی حیثیت سے محض مرقّق (دل کو نرم کرنے والا) ہے ۔ (آداب التبلیغ:ص ۱۱۳)عام وعظ وتبلیغ میں مسائل نہیں بیان کرنا چاہئے عوام کو تو ثواب وعذاب ہی کی باتیں یعنی فضائل بتانا چاہئے اور مسائل پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں ۔وعظ میں فقہی مسائل بیان کرنے کی علماء کی عادت بالکل نہیں حالانکہ بظاہر ضروری معلوم ہوتا ہے ۔اور مجھے پہلے یہ خیال ہوا کرتا تھا کہ پرانے علماء اپنے وعظ میں ترغیب وترہیب کے مضامین کے علاوہ مسائل فقہیہ نہیں بیان کرتے تھے اس کی کیا وجہ تھی ۔ ایک مرتبہ میں نے لکھنؤمیں تین چار مسئلے سونے چاندی کے زیور کی خرید وفروخت کے متعلق اپنے وعظ میں بیان کئے جب لوگ وہاں سے منتشر ہوئے تو انہوں نے ان مسائل کا اعادہ کیا اور پورا ضبط نہ رہنے کی وجہ سے ایک مسئلہ کو دوسرے میں مخلوط کرکے آپس میں اختلاف کیا پھر معاملہ میرے سامنے تک آیا تب مجھے خیال ہوا کہ واقعی یہی وجہ تھی علماء کے وعظوں میں مسائل فقہیہ نہ بیان کرنے کی کہ لوگ ان میں خلط ملط اور گڑبڑ کرلیتے ہیں ۔ اسلئے مناسب یہی ہے کہ جب لوگوں کو کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ علماء کے سامنے بیان کریں اور اس وقت ان کو اس کے متعلق جواب دیا جائے ۔پہلے سے بتانا ٹھیک نہیں کہ یوں ہوتو یوں کرنا اور اس طرح ہوتو یہ حکم ہے ۔اس سے آدمی گڑبڑی میں پڑجاتے ہیں ۔ (حسن العزیز:ص ۱۸۲؍ج۲،ص۹۰؍ج۱،الفصل اللوصل:ص۲۰۷)