دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
عوام کو تبلیغ عام اور وعظ کہنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ بعض اَن پڑھ بھی صاحب کمال اور دیندار سمجھدار ہوتے ہیں ۔ان کا حافظہ بھی اچھا ہوتا ہے ۔اور اس کے باوجود اگر ان سے کوئی بات پوچھی جائے اور ان کو معلوم نہ ہو ، تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں ۔ایسے لوگوں کا وعظ کہنا کسی عالم کی اجازت کے بعد جائز ہے ۔ شاہ عبدالعزیزؒ کے زمانہ میں ایک امّی (اَن پڑھ) شخص وعظ کہتا تھا ۔مگر اس کا حافظہ ایسا اچھا تھا ۔کہ وہ شاہ صاحب کے وعظ کو از بریاد کرلیتا تھا تو ایسے شخص کو اجازت ہے جب کہ ہر پہلو سے یقین ہوجائے کہ قوی الحافظہ ہے … (دیندار) بھی ہے اور اس کے دین کی جانچ بھی کرلی ہو۔ اسی طرح اگر کسی طالب علم کو وعظ کے لئے متعین کیا جائے تو جائز ہے مگر اس کے حدود مقرر کردو ، کہ اس حد تک کام کرو آگے نہ بڑھو (جیسے مروّجہ تبلیغ والوں کو صرف چھ نمبر بیان کرنے کی اجازت ہے ) آخر دنیا کے ہر کام کی ایک حد ہوتی ہے کہ اس حد سے تجاوز کرنا جائز نہیں رکھا جاتا ۔ (آداب التبلیغ:ص ۱۰۸)علماء وعوام کی تبلیغ کا فرق اور اس کے حدود (۱) علماء کے ذمہ تو تبلیغ اس شان سے ہے کہ وہ اپنے سارے اوقات میں یہی کام کریں ۔ اور دوسرے آدمی جستہ جستہ (وقتاً فوقتاً) اوقات میں یہ کام کیا کریں ۔ (۲) تفصیل اس کی یہ ہے کہ خطاب کی دوقسمیں ہیں : ایک خطاب عام دوسرے خطاب خاص۔ دوسری تقسیم یہ ہے کہ ایک خطاب بالمنصوص ہے ایک خطاب بالاجتہاد ۔ پس خطاب عام بصورت وعظ توعلماء کا کام ہے…مگر انفردای خطاب میں علماء کی تخصیص نہیں