دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ہوگی۔ پھر عمل کرنے کی توفیق ہوجائے گی ۔کیوں کہ شروع شروع میں عمل تکلف سے ہوتا ہے ۔کیوں کہ طبیعت کے خلاف کام ہوتا ہے ، اسلئے کوئی امر آمادہ کرنے والا اور ابھار نے والا ہونا چاہئے ۔ طبیعت کے خلاف تو دنیا کا بھی کوئی کام بغیر لالچ یا بغیر خوف کے نہیں ہوتا ہے پھر عادت ہوجاتی ہے ۔اس وقت ترغیب وترہیب کی بھی ضرورت نہیں رہتی ۔ مثلاً باپ اگر بیٹے کو کسی نقصان دہ چیز سے روکتا ہے تو اتنا کہہ دینا کہ ’’یہ چیز مت کھانا‘‘ حاکمانہ حق ادا کرنے کے لئے کافی ہے آگے اسے اختیار ہے چاہے پرہیز کرے یا بھاڑ میں جائے۔ مگر باپ اتنی بات پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ شفقت کی وجہ سے کہتا ہے کہ بیٹا یہ چیز مضر ہے ۔ دست آور ہے اسے مت کھانا، یہ پیٹ میں درد پیدا کردے گی ۔اس کے کھانے سے پھنسیاں نکل آئیں گی ، تواتنا لگنا لپٹنا شفیق ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ اس کو خوف دلانے کی کیا ضرورت پڑی تھی ۔ اور اسی طرح کبھی لالچ دلانے سے کام لیتا ہے اگر یہ دوا پی لوگے تو تم کو یہ دوں گا وہ دوں گا ۔ خود میرا ایک واقعہ ہے کہ بچپن میں ایک دفعہ بیمار ہوا ۔حکیم صاحب نے دوائی تجویز کی مگر میں پیتا نہ تھا ۔تو والد صاحب نے کہا کہ اگر دوائی پی لوگے تو تم کو ایک روپیہ دوں گا ۔بس روپیہ کی لالچ میں پی گیا ۔ تواس واسطے ضرورت ہے ترغیب وترہیب کی کیوں کہ ایسے آدمی بہت کم نکلیں گے جو بلا ترغیب وترہیب کے امتثال امر(اللہ کی اطاعت) کرلیں ۔سبحان اللہ! حق تعالیٰ کی کتنی بڑی شفقت ہے کہ حضور کو اور امت کو یہ ترکیب بتلائی کہ آپ اس طریقہ سے (دعوت کا) کام کیجئے ،کس قدر رحمت ہے کہ دشوار عمل کو آسان کردیا ۔ (آداب التبلیغ:ص ۱۱۴)ترغیب وترہیب کی حقیقت اور اس کا طریقہ ترغیب وترہیب بھی ایک حیثیت سے احکام ہی میں سے ہیں ۔ مثلاً جنت اور دوزخ کا مضمون عقیدہ کے درجہ میں تو احکام ہی میں داخل ہے اور عقائد میں سے ہے ۔مگر دوسری حیثیت سے ترغیب وترہیب ہے یعنی جہاں احکام سنانا اور جنت ودوزخ کا معتقد بنانا مقصود نہ ہو وہاں ترغیب وترہیب ہے ۔ مثلاً کسی سے کہا کہ اگر نماز پڑھو گے تو ایسی جنت ملے گی جس کی یہ شان ہے اور جس