دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
(خاموش )کیا کریں ، کیونکہ تحقیقی جواب مسلمانوں کو زیادہ نافع ہوں گے ۔اور الزامی دوسرے مذہب والوں کو زیادہ مفید ہوں گے ۔اور ان لوگوں کو بھی مفید ہوں گے جو دوسرے مذہب کی طرف مائل ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ خطاب خاص تو سب کو یکساں اپنے اپنے گھروں میں کرنا چاہئے ۔اور خطاب عام میں ایک تو ایسے لوگ ہوں جو وعظ کہا کریں جو اہل اسلام کے مناسب ہوتا کہ مسلمانوں کی اصلاح ہو ۔اور ایک وہ ہوں جو ایسے لوگوں کے مقابلہ میں تبلیغ کریں ، جن کو اسلام پر شبہ ہوگیا ہو ، یا اسلام سے تعلق کم ہوگیا ہو ۔یا وہ غیر مسلم ہوں ، تاکہ اسلام کی طرف آجائیں ۔ (الدعوت الی اللہ :ص ۵۹،۶۰، ملحقہ دعوت وتبلیغ)علماء کے دعوت تبلیغ کرنے کی کیفیت اور اس کا طریقہ دعوت کی دوقسمیں ہیں : ایک دعوت خاصہ ، ایک دعو ت عامہ ۔ دعوت عامہ وہ ہے جس میں خطاب عام ہو ۔یہ کام صرف مقتدائوں (یعنی علماء ) کا ہے ۔(الدعوت الی اللہ:ص ۵۵) (بالفاظ دیگر) خطاب کی دوقسمیں ہیں : ایک خطاب عام ، دوسرے خطاب خاص۔ دوسرے تقسیم یہ ہے کہ ایک خطاب بالمنصوص ہے ، ایک خطاب بالاجتہاد ۔پس خطاب عام وعظ کی صورت میں یہ تو علماء ہی کا کام ہے ۔انہیں کے خطاب عام میں اثر ہوتا ہے کیوں کہ لوگ ان کو مقتداسمجھتے ہیں اور عامی شخص کو کوئی مقتدا نہیں سمجھتا۔ غرض ایسے امور کی تبلیغ جن کی حقیقت علماء ہی سمجھتے ہیں ۔یا خطاب عام کے ساتھ وعظ کہنا اور دین کے احکام بیان کرنا علماء کے ساتھ خاص ہے (اور یہی ان کی تبلیغ ہے) ۔ (التواصی بالحق :ص ۱۶۳،۱۶۴) اہل علم کو چاہئے کہ دعوت الی اللہ بھی کیا کریں ، جس کا آسان ذریعہ وعظ ہے ۔ (الدعوت الی اللہ :ص ۲۴)