دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
چھوڑنے والے اور حرام کام کرنے والوں سے )دل سے نفرت رکھے ۔ (بیان القرآن:ص ۴۵؍ج۲) (خلاصہ یہ کہ )تبلیغ واجب ہے بشرطیکہ گمان غالب ہو کہ میرے تبلیغ کرنے سے مجھے ایسا ضرر ( نقصان) نہ ہوگا، جس کو میں برداشت نہ کرسکوں گا ۔ (الکلام الحسن:ص ۱۵) بعض دفعہ عام لوگوں کو امر بالمعروف کرنے کی وجہ سے مخالفت بڑھ جاتی ہے جس کا تحمل ہر ایک سے نہیں ہوتا اور اگر کسی سے تحمل ہوسکے تو سبحان اللہ ! وہ امر بالمعروف کریں ، اور اگر تحمل کی طاقت نہ ہوتو خطاب خاص نہ کرے ۔محض عام خطاب پر اکتفاء کرے (یعنی عمومی انداز میں بات کہہ دے ۔کسی خاص شخص کو مخاطب نہ بنائے)۔ غرض امر بالمعروف وہیں کرے جہاں قدرت ہو۔ (العبدالربانی ملحقہ حقوق وفرائض:ص۱۱۳) اور جہاں قدرت نہ ہو یا جس کو تبلیغ کررہا ہے اس کی طرف سے ضرر کا خطرہ ہو، وہاں تبلیغ واجب نہیں ۔ (الکلام الحسن:ص ۱۵)قدرت کی تعریف وتقسیم خوب سمجھ لیجئے کہ قدرت کی دوقسمیں ہیں :… ایک یہ کہ جو کام ہم کرنا چاہتے ہیں (مثلاً امر بالمعروف نہی عن المنکر )اس پر تو ہم کو قدرت ہے لیکن اس کے کرنے کے بعد جن خطرات کا سامنا کرنا ہوگا ان کے دفعہ کرنے پر قدرت نہیں ۔دوسرے یہ کہ فعل پر بھی قدرت ہے اور اس کے کرلینے کے بعد جو خطرات پیش آئیں گے ان کی مدافعت پر بھی قدرت ہوپہلی صورت استطاعت لغو یہ ہے ۔اور دوسری صورت استطاعت شرعیہ ہے۔خوب سمجھ لیجئے!اور مدافعت (یا تبلیغ) کی فرضیت کے لئے ۔پہلی استطاعت کافی نہیں ۔بلکہ دوسری استطاعت شرعیہ شرط ہے ۔جس کو اس حدیث نے صاف کردیا ہے :’’مَنْ رَّایٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرُہٗ