دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ہوتو ذرا خود تبلیغ میں بھی صبرواستقلال سے کام لینا، کیوں کہ تبلیغ میں بعض ناگوار یاں بھی پیش آتی ہیں ، اگر صبر واستقلال سے کام نہ لیا تو تبلیغ دشوار ہوجائے گی ۔ (التواصی بالحق:ص ۱۷۸) مگر یہ ضروری ہے کہ اپنی طرف سے سختی اور درشنی کا اظہار نہ کریں بلکہ نرمی اور شفقت سے امر بالمعروف کرے ،اس پر بھی مخالفت ہوتو تحمل کرے اور اگر تحمل کی طاقت نہ ہو تو خطاب خاص نہ کرے محض عام خطاب پر اکتفاء کرے ۔ (حقوق وفرائض:ص ۱۱۳)حکمت اور نرمی کے ساتھ اگر دعوت دی جائے توناگواری نہ ہوگی حق تعالیٰ فرماتے ہیں :’’اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ ‘‘ یعنی اپنے رب کی طرف لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ سے دعوت دو۔ اگر نصیحت موعظہ حسنہ سے ہوگی اس سے کسی کو ناگواری نہ ہوگی، اور بالفرض اگر نصیحت سے کوئی دوسرا غصہ بھی ہوگیا تب بھی اس سے لڑومت ۔اس وقت چپ رہو، دوسرے وقت سمجھائو کہ بھائی تم تو برا مان گئے ۔غور کرو یہ کیسی اچھی بات ہے اس کو قبول کرلو ، اگر ایک دفعہ سے کام نہیں چلتا تو بار بار سمجھائو اور صرف اسی پر اکتفا نہ کرو ، بلکہ خلوت میں اللہ تعالیٰ سے دعاء بھی کرو کہ خطاب کا اثر اس کے دل میں پیدا کردے (اور یہ دعاء کرے )یا اللہ ہم نے کام شروع کیا ہے تو اس کو پورا فرما ۔اگر پکے رہو اور ان کے سرہوجائو(یعنی لگے رہو) تو انشاء اللہ کام ضرور بن جائے گا ۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۱۲۸)دوست اور ہر مسلمان کو تبلیغ ونصیحت کرنے کی ضرورت اگر تمہارے کسی دوست کا روپیہ راستہ میں گرپڑے تو تم پر حق یہ ہے کہ اسے اٹھاکر دے دو ، اور اس سے کہو کہ اچھی طرح باندھ کر رکھو۔اور ایسا ہی کرتے بھی ہیں ۔یہ نہیں کرتے کہ روپیہ کو راستہ ہی میں پڑا رہنے دیں کہ ہمیں کہنے کی کیا ضرورت ہے ۔ یہ کوئی بچہ ہے ؟ خود