دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
تقویٰ میں غلو کی ممانعت بہت سے لوگ تقویٰ میں مبالغہ کرتے ہیں اور اسی کو اچھا سمجھتے ہیں اور بظاہر یہ اچھا معلوم بھی ہوتا ہے ۔مگر یہ محمود نہیں ۔کیوں کہ مبالغہ کی وجہ سے کسی وقت یہ شخص مایوس ہوجاتا ہے ۔کیوں کہ اس کے نزدیک تقویٰ کا جو اعلیٰ درجہ ہے اس کا حاصل ہونا دشوار ہے اور ادنی درجہ کا یہ کافی نہیں سمجھتا ۔ اس لئے اخیر میں اس کو مایوسی ہوجاتی ہے ۔ مثلاً بعض واعظوں سے لوگوں نے قصّے سنے ہوں گے… کہ ایک شخص کا قصہ ہے کہ وہ رزق حلال کی تلاش میں کسی بزرگ کے پاس آیا اور کہا کہ میں آپ کے پاس رزق حلال کی طلب میں آیا ہوں ، یہ سن کر وہ بزرگ رونے لگے اور کہا کہ اب تک تومیرا کسب (ذریعہ معاش) حلال تھا ، لیکن اب نہیں رہا ۔ایک دن میرے بیل دوسرے شخص کے کھیت میں چلے گئے تھے ۔ اس کے کھیت کی مٹی میرے بیلوں کے پیر کو لگ گئی اور میرے کھیت میں مل گئی ۔ اب مجھے شبہ ہوگیا ہے ۔ ایسے قصے سن کر لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ بس تقویٰ بہت دشوار ہے حالانکہ یہ قصہ شریعت کے بھی خلاف ہے ۔اور عقل کے بھی ۔عقل کے خلاف تو اس لئے کہ بیل کے پیر کو جو مٹی لگ جاتی ہے وہ تھوڑی دور چلنے سے چھڑ جاتی ہے ۔توکیا یہ ضروری ہے کہ دوسرے کے کھیت کی مٹی اس کے کھیت میں مل گئی ہو ،ایسے ہی ان کے کھیت کی مٹی اس کے کھیت میں بھی جاملی ہوگی تو برابر سرابر معاملہ ہوگیا۔ اور شریعت کے خلاف اس لئے ہے کہ شریعت نے ایسے مبالغہ کو قابل تعزیر سمجھا ہے ۔ مثلاً ایک دانہ گندم کی تعریف وتشہیر(اعلان) کرتا پھرے کہ یہ دانہ کس کا ہے ؟ تو فقہا کہتے ہیں کہ ’’اِنَّہٗ یُعَزَّرُ‘‘ کہ اس شخص کو سزا تعزیردی جائے ۔کیونکہ شریعت نے اس قلیل مقدار کو قابل تعریف (اعلان) اور لقطہ میں داخل نہیں بنایا کیوں کہ یہ مال نہیں ، کیونکہ