دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
طرف کھسک کر بیٹھ گئے ۔ یہ ہمارے مصلح صاحب کیا سمجھے کہ شاید انہوں نے نماز بھی اسی طرح پڑھی ہوگی بس فوراً پکار کر کہنے لگے کہ صف ٹیڑھی کرنا جائز نہیں ۔ میں نے کہا تمیز بھی ہے ۔ اوّل تو تم کو تحقیق کرنا چاہئے تھاکہ نماز بھی اسی طرح پڑھی ہے یا نہیں ۔دوسرے اگر محقق بھی ہوجاتا تو بھی نرمی سے کہنا چاہئے تھا ۔ تیسرے یہ کہ تم ایک عامی آدمی ہو تمہیں توتحقیق کے بعد بھی کسی اہل علم کو کہنے کا منصب نہیں چہ جائیکہ تم اتنی سختی سے کہتے ہو، اسی طرح علماء کو بھی عوام پر … سختی نہ کرنا چاہئے۔ ہاں کہیں خاص قدرت ہوتو مضائقہ نہیں مگر بلا ضرورت وہاں بھی سختی نہ کرنا چاہئے ۔ (التبشیر:ص ۳۷۹)اصلاح وتبلیغ کا ناجائز طریقہ خوب سمجھ لو کہ نصیحت (وتبلیغ) کرنا (بدعمل کو بھی )فی نفسہٖ جائز ہے مگر اس طریقے سے ناجائز ہے کہ باوجود عامل نہ ہونے کے عامل معلوم ہو ۔اس وجہ سے کہ یہ کذب (جھوٹ) کو متضمن ہے۔ نہ کہ اس وجہ سے کہ نصیحت ہے۔ اگر تم عامل (عمل کرنے والے ) نہیں بھی ہوتو وعظ(تبلیغ) کہنے میں کیا حرج ہے اس طرح نہ کہو کہ عامل معلوم ہو۔کیوں کہ یہ جھوٹ اور تکبر ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی اپنی حالت ایسی بنائے جس سے تارک الدنیا (یا مبلغ اور دیندار) معلوم ہوتا ہو (حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے ) تو ایسی حالت کا اظہار کرنا گناہ ہے ۔تو ایسے طورپر نصیحت کرنا بھی جائز نہیں ۔ اور اس طرح نصیحت کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ عامل نہ معلوم ہو ، ہاں دوسرے کو ایسی (بے عمل کی )نصیحت سے نفع کم ہوگا ۔ الغرض! جب اس طرح سے کہا جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ بھی یہ کام کیا کرتے ہیں ۔(حالانکہ کرتے نہیں ہیں ) تویہ جائز بھی نہ ہوگا ۔ (التبشیر:ص ۴۰۳)