دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
پھر ’’اِنَّنِیْ مُسْلِمٌ‘‘ نہیں فرمایا کہ اس میں تفرد کا شبہ ہوتا ۔کیوں کہ بڑے کاتو غلام بننا بھی توفخر ہے تو اس صورت میں پھر عجب کا شائبہ رہ جاتا ہے ۔کہ یہ شخص سمجھتا کہ تنہا میں ہی فرمابردار ہوں … تو ’’اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ نے صیغہ کے اعتبار سے اس طرف اشارہ کردیا کہ کام کرنے والے تو بہت ہیں کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں ایک ہی ہوں ۔کبھی نخرہ پیدا ہوتا ہے کہ میں نہیں کروں گا ۔توکام رک جائے گا ۔یہ لفظ بھی بتلا رہا ہے کہ وہاں بہت سے غلام ہیں ۔اگر ایک غلام نے فرمابرداری نہ کی تو اس نے اپنا ہی کچھ کھویا ۔ (الدعوت الی اللہ:ص ۴۳)کام کرنا مقبول ہونے کی دلیل نہیں اللہ تعالیٰ جس سے چاہیں اپنے دین کا کام لے لیتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ جس سے کام لیا جائے وہ عند اللہ مقبول ہی ہو ۔دیکھو چمار سے کام لیا جاتا ہے مگر اس سے چمار کا کوئی درجہ نہیں بڑھ جاتا ۔وہ اپنی جگہ چمار ہی رہتا ہے ۔ (مجالس حکیم الامت:ص ۲۸۶)