دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
فصل(۲) باپ بیٹے کو تبلیغ کرنے کا طریقہ قرآن پاک میں حکم ہے کہ والدین کا ادب کرو، اور ان کی تعظیم کرو حتی کہ اگر وہ کافر بھی ہوں تب بھی ان کے ساتھ شائستگی برتو، دیکھئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے باپ کو نصیحت کی ، کیوں کہ وہ کافر تھے ۔ مگر کس خوبی سے فرماتے ہیں :’’یَااَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَالَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئاً‘‘۔ اے میرے باپ ! اے ابا جان پہلے ’’یاابت‘‘ فرمایا یہ لفظ ہی ایسا ہے جس سے باپ پگھل جاتا ہے ۔کیوں کہ باپ کو اپنی طرف نسبت کرنے سے اس پر خاص اثر ہوتا ہے ۔ جیسے بیٹے کو کہو ، اے میرے بیٹے ! تو اس کا خاص اثر ہوتا ہے ، اسی طرح یہ کہنا کہ اے میرے ابّا! اس کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے ۔اس طرح کہنے کا وہ اثر ہے جو تلوار کا بھی نہیں ۔ اوّلا تویہ لفظ ہی بڑا مؤثر ہے ۔ پھر فرماتے ہیں کہ آپ ایسی چیز کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ دیکھے ، نہ سنے، اور نہ کچھ فائدہ ہی پہونچاسکے ۔اس کی عبادت کیوں کرتے ہیں ۔دیکھئے کس خوبی سے تبلیغ کی ۔ یہ نہیں کہ لٹھ سا ماردیں ، بلکہ پہلے تو اس میں ان کے طریقہ کی مذمت بیان کی، پھر فرماتے ہیں کہ ’’اِنِّیْ قَدْجَائَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَالَمْ یَاء تِکَ فَاتَّبِعْنِیْ اَہْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا‘‘ ۔ یہاں بھی مکرروہی لفظ ہے ۔’’یَااَبَتِ‘‘ شاید کسی کو وہم ہو کہ ایک دفعہ ’’یَااَبَتِ‘‘ کہہ چکے ہیں پھر بار بار ،یاابت،یا ابت، دہرانے کی کیا ضرورت ۔اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں کوئی لکچر تودینا نہیں تھا وہاں تو دل سوزی کی ضرورت تھی اس لئے بار بار وہی لفظ استعمال کرنا چاہئے جس سے دل پگھل جائے تو فرماتے ہیں :’’یَااَبَتِ اِنِّیْ قَدْجَائَ نِیْ ‘‘الخ اے میرے باپ ۔اے ابا جان … مجھے خدا نے ایسا علم دیا جو آپ کو نہیں ۔آپ میرا اتباع کیجئے، میں آپ کو سیدھا راستہ بتلائوں گا ، جس میں کوئی کجی نہیں ہے ۔جب سارے دلائل بیان کرچکے توبطور تفریع (نتیجہ) کے فرماتے ہیں :