دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
سمجھے کہ میں اس سے کم درجہ کا ہوں ، اور وہ مجھ سے افضل ہے ۔ (انفاس عیسیٰ:ص ۳۸۱) شاید کوئی یہ کہے کہ صاحب ہم تو نماز پڑھتے ہیں ،اور دوسرا بے نمازی ہے اس سے تو اپنے کو اچھا ہی سمجھیں گے ، مسلمان اپنے کو کافر سے تو اچھا ہی جانتا ہے ۔ اس کے دو جواب ہیں ، ایک عقلی دوسرا ذوقی، عقلی جواب تو یہ کہ ’’اَلْاِعْتِبَارُ بِالْخَوَاتِیْمِ‘‘ یعنی اعتبار توخاتمہ کا ہے ،اور خاتمہ کا حال معلوم نہیں کیا ہوگا،افضل تو وہ ہے جس کا خاتمہ اچھا ہو، اب کس کو پتہ ہے کہ بے نمازی کا خاتمہ اچھا ہوگا یا ہمارا… بڑی فضیلت تویہ ہے کہ آدمی ایمان کے ساتھ مرجائے، جو ہم کو معلوم نہیں ،اسی طرح کا فر کی حالت معلوم نہیں کہ اس کا خاتمہ اچھا نہ ہوگا، ممکن ہے کہ مرتے دم وہ مسلمان ہوجائے اور اس کا خاتمہ اچھا ہوجائے ، پھر یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ہوکہ تم اس سے اچھے ہو۔ایک حکایت حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نے قصہ نقل کیا تھا ، کہ مولانا محمد قاسم صاحب نے ایک بنیے کو خواب میں دیکھا جو ان کے پڑوس میں رہتا تھا ۔اس کے مرنے کے بعد دیکھا کہ وہ جنت کے باغ میں سیر کررہا ہے ، پوچھا کہ لالہ جی تم یہاں کیسے ہو؟ کہا کہ مرتے وقت کلمہ پڑھ لیا تھا ، اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرمادی ۔ یہاں لا لہ جی تھے ۔وہاں گل لالہ ہوگئے ۔کیا معلوم کس کا خاتمہ کیسا ہو ۔ ایک اور مثال دیتا ہوں ، جس سے ذوقی جواب سمجھنے کی کسی قدر قابلیت ہوجائے گی ، گو تفصیل سے نہ سمجھ سکو ۔مثلاً کسی شہزادہ (بادشاہ کے لڑکے) نے کوئی جرم کیا ہو اور بادشاہ کی طرف سے کسی بھنگی کو حکم ہوا ہو کہ شہزادے کے ایک درجن بیدلگائو اور بادشاہ بھی عادل کہے ظالم نہیں ۔ اور یہ بیچارہ بھنگی ہے ۔اور وہ شہزادہ ہے ۔اب وہ ٹکٹکی لگاکر بید لگاتا ہے ۔کیا کرے شاہی حکم ہے ۔گوبید مارتے ہوئے اس کی روح نکلتی ہے ۔