دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
بعض واعظین (ومبلغین) اسی الزام کو مؤکد (اور ثابت )کرنے کے لئے ایک مثال دیا کرتے ہیں کہ اگر کہ کوئی دوست دعوت کردے تواطمینان ہوجاتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر اطمینان نہیں ۔ یہ بھی غلط اور قیاس مع الفارق ہے اور خواہ مخواہ مسلمانوں کو کافر بنانا ہے ۔بخدا اگر حق تعالیٰ کے کلام مجید میں معین وعدہ ہوتا تو ہر گز ہرگز ۔کسی کو پریشانی نہ ہوتی ۔اور اگر دعوت میں بھی وقت معین نہ کیا جائے ۔اور مبہم طور سے کہہ دیا جائے کہ کسی وقت کی دعوت ہے تو وہاں بھی اطمینان نہ ہوتا ۔ یہاں اتنی بات فرمائی ہے کہ رزق ملے گا ۔اس پر ایمان ہے شریعت میں غلو نہ کرنا چاہئے ۔جس قدر جو بات ثابت ہو اسی پر رہنا چاہئے ۔ اہل کتاب کو ارشاد ہے :’’یَااَہْلَ الْکِتَابِ لَاتَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ ‘‘ یعنی اے اہل کتاب !دین میں غلو نہ کرو ۔فروع (احکام) میں ان کے غیر مکلف ہونے کے باوجود ان کو یعنی اہل کتاب کو خطاب کیا گیا ہے تو ہم تو بدرجہ اولیٰ اس حکم کے مکلف ہوں گے ۔ (وعظ الجناح ملحقہ مفاسد گناہ:ص۱۰۴)ایک اور غلطی اسی طرح بعض غیر محقق واعظ( ومبلغ) ایسی چھری پھیرتے ہیں کہ مسلمانوں کو کافر بناتے چلے جاتے ہیں ۔چنانچہ جو لوگ نماز میں سستی کرتے ہیں ان کو منافق کہہ دیتے ہیں اور یہ آیت پڑھ دیتے ہیں ۔’’وَاِذَا قَامُوْا اِلَی الصَّلوٰۃِ قَامُوْا کُسَالٰی‘‘۔ یہ آیت منافقین کی شکایت میں ہے ۔کہ وہ نماز کے واسطے کھڑے ہوتے ہیں تو اس حالت میں کھڑے ہوتے ہیں کہ کاہل (اور سست )ہوتے ہیں ۔ خوب سمجھ لو کہ کسل اعتقادی اورشئی ہے اور کسل طبعی جداشئی ہے ۔منافقین میں