دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
کو زائد کام سمجھ رکھا ہے … اس لئے اگر اس کی نوبت آجاتی ہے تو اس پر فخر کرتے ہیں اگر اس کو بھی فرض سمجھتے تواس پر فخر نہ ہوتا بلکہ یہ سمجھتے کہ یہ توہمارے ذمہ ضروری تھا اور جس طرح نماز کے ترک پر ندامت ہوتی ہے اس کے ترک پر بھی ندامت ہوتی اپنے نفس کو ملامت کی جاتی مگر اس کے ترک پر کوئی اپنے نفس کو ملامت نہیں کرتا ۔ یہ تو ایسا ہوا ، جیسے ایک آدمی صرف چار نمازیں پڑھے عشاء کی نماز نہ پڑھے تو یہ کوئی نمازی ہے ؟ اس کو کوئی بھی نمازی نہ سمجھے گا پھر آپ تبلیغ کو ترک کرکے اپنے کو دیندار کیوں سمجھتے ہیں ؟ خوب سمجھ لیجئے کہ اس کے بغیر آپ دیندار نہیں ہوسکتے ۔ (التواصی بالحق:ص ۱۶۱) میں بتلا چکا ہوں کہ تبلیغ صرف مولویوں کے ذمہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کے ذمہ ہے البتہ تبلیغ عام بطور وعظ کے علماء کے ساتھ خاص ہے باقی تبلیغ خاص انفرادی طورپر ہر شخص کے ذمہ ہے ۔ (دعوت وتبلیغ،ص۱۹۱)امت کے ہر فرد پر تبلیغ واجب ہے دوسرے نصوص میں دعوت وتبلیغ نہ کرنے کی وعید عام ہے ۔چنانچہ ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ جو لوگ امر بالمعروف نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کو عام عتاب کرے گا ، اور آپ نے استشہاد کے لئے یہ آیت پڑھی۔ وَاتَّقُوا فِتنَۃً لَاتُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنکُم خَاصَۃً۔ (انفال) اور تم ایسے وبال سے بچو جو کہ خاص ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں ۔(بیان القرآن)اس کی تشریح ماقبل میں گذر چکی ہے۔ اس کے انضمام(ملانے) سے معلوم ہوا کہ امت کا ہر فرد بھی وجوب دعوت کے حکم میں داخل ہے، نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پہلی امتیں امر بالمعروف کے ترک سے ہلاک ہوئی ہیں اور امم سابقہ (گذشتہ قوموں )کے حالات نقل کرکے اگر اس پر نکیر نہ کی