دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
اے مسلمانو! تم بہترین امت ہو ، جو لوگوں کی ہدایت کے لئے ظاہر کئے گئے ہو، تم نیک کاموں کا حکم کرتے ہو ، برے کاموں سے روکتے ہو ۔ یہاں امر بالمعروف کو سب کے لئے عام کیا گیا ہے ۔ اس کو اہل تمدن تقسیم خدمت کہتے ہیں اور کوئی قوم بغیر تقسیم خدمات کے ترقی نہیں کرسکتی۔ پس علماء کے ذمہ تو تبلیغ اس شان سے ہے کہ وہ اپنے سارے اوقات میں یہی کام کریں اور دوسرے آدمی جستہ جستہ اوقات میں کبھی یہ کام کیا کریں ۔کیوں کہ حق تعالیٰ نے تواصی بالحق وتواصی بالصبر(یعنی دعوت وتبلیغ) کو خسارہ سے بچنے کی شرط قرار دیا ہے اور خسارہ سے بچنا سب کے ذمہ فرض ہے ۔ (تواصی بالحق:ص ۱۶۵)دعوت خاصہ ودعوت عامہ کا حکم دعوت خاصہ ہر مسلمان کے ذمہ ہے اور وہ وہ ہے ۔جس میں خطاب خاص ہو، اپنے اہل وعیال کو ، دوست واحباب کو ، اور جہاں جہاں قدرت ہو، اور خود اپنے نفس کو بھی ۔ چنانچہ حدیث میں ہے ’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ‘‘ کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور تم میں سے ہر ایک سے قیامت میں پوچھا جائے گا ۔کہ رعیت (اپنے ماتحتوں )کے ساتھ کیا کیا ۔یہ دعوت خاصہ ہے ۔قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے۔ ’’یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْااَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا‘‘اے ایمان والو۔اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ سے بچائو یہ بھی دعوت خاصہ ہے ۔ سو اس کا تو ہر شخص کو اپنے گھر میں اور تعلقات کے موقع میں اہتمام کرنا چاہئے ۔ اور ایک دعوت عامہ ہے جس میں خطاب عام ہو ۔یہ کام صرف مقتدائوں کا ہے جیسا کہ ’’وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ ‘‘ سے معلوم ہورہا ہے ۔ (الدعوت الی اللہ:ص ۵۵)