دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنے ماں باپ کو گالیاں مت دو ، صحابہؓ نے نہایت تعجب سے پوچھا، کہ حضور اپنے ماں باپ کو کو ن گالیاں دیتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ کسی کے ماں باپ کو گالیاں دے وہ اس کے ماں باپ کو گالیاں دے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (کسی غلط کام کا) سبب بننا بھی مباشر (یعنی اس کام کے کرنے) کے حکم میں ہے ۔تو جب تم سبب ہوئے ان کے کفر کے توگویا تم نے کفر کی تعلیم دی۔ (التبشیرملحقہ دعوت وتبلیغ:ص ۳۸۵)تکبر وعجب نہ ہونے کی شرط امر بالمعروف کی ادنیٰ شرط یہ ہے کہ جس کو نصیحت کرے ، عین نصیحت کے وقت یہ سمجھے کہ میں اس سے کم درجہ کا ہوں اور وہ مجھ سے افضل ہے ۔(انفاس عیسیٰ:ص ۶۴۶؍ج۲) ایک شخص عالم ہے اور ایک جاہل، تو یہ عالم اکمل تو ہے مگر افضل ہونا خدا ہی کو معلوم ہے کہ افضل جاہل ہے یا عالم، کیوں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، کہ عالم کے لئے افضل ہونا بھی لازم ہو، ممکن ہے کہ اس جاہل کے قلب میں ایسی کوئی چیز ہو کہ وہ علم سے کہیں زیادہ خدا کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہو۔تو اپنی اکملیت (یعنی کامل ہونے) کی بناپر اپنے کو افضل سمجھنا برا ہے۔ (الافاضات الیومیہ:ص ۳۶۸) ایک انسان عالم ہے ، محدث ہے ، مفسر ہے ،فقیہ ہے ، حافظ ہے، قاری ہے ، نیک ہے، (مبلغ ہے واعظ ہے) اس لئے وہ سمجھ رہا ہے کہ میں مقبول ہوں (تویہ سمجھنا صحیح نہیں ) ممکن ہے کہ وہاں مردود ہو ۔حاصل یہ ہے کہ ظاہری کمالات مقبولیت کی دلیل نہیں ۔ ممکن ہے کہ ہمارے اندر کوئی ایسی باطنی خرابی ہو جو اللہ کو ناپسند ہو… جس کو یہ خبر نہ ہو کہ میں اللہ کے نزدیک مومن ہوں یا غیر مومن تووہ کچھ بھی بن جائے کچھ بھی نہیں ۔ (کمالات اشرفیہ:ص ۱۳۳، آداب معاشرت جدید:ص ۳۴۲)