دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
کوئی نقصان نہیں آتا۔کیوں کہ واقعات امورغیر مقصود ہوتے ہیں ۔ہاں امورمقصودیعنی احکام کا علم بڑوں کو زیادہ ہوتا ہے ۔اور اس میں ایک بات اور ہے وہ یہ کہ چاہے چھوٹے کے پاس کچھ علم نہ ہومگر مشورہ سے کم ازکم اتنا فائدہ ہوگا کہ اس سے مزید اطمینان ہوجائے گا۔ (آداب التبلیغ:ص ۸۴)قرآن کی تعلیم دیکھئے قرآن شریف میں مشورہ کا بھی امر ہے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔’’وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الْاَمْرِ‘‘ آپ مشورہ کیجئے ۔ حضور کو صحابہؓ سے مشورہ کرنے کا حکم ہے ۔لیکن یہ حکم نہیں کہ ان کے مشورہ پر عمل کریں ۔ بلکہ آگے عمل کے متعلق یہ ارشاد ہے ’’فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ‘‘ کہ مشورہ کے بعد آپ کا جو ارادہ ہوجائے ۔اللہ پر توکل کرکے اس پر عمل کیجئے ۔ اہل مشورہ کی رائے کا اتباع ضروری نہیں ۔ یعنی جب خود آپ کا قصد ہوجائے ، توآپ خدا پر بھروسہ کرکے اس کام کو کرڈالیے۔ یہ نہیں فرمایا :’’فَاِذَا عَزِمُوْا‘‘ کہ وہ جب عزم (ارادہ) کریں یا’’فَاِذَا عَزِمُوْا اَکْثَرُہُمْ ‘‘ کہ ان میں سے اکثر عزم کریں (اس کا اتباع کیجئے )۔ مطلب صرف یہ ہے کہ مشورہ تو ان سے کیجئے اور عزم (وارادہ) اپنا ہو، کہ مشورہ کے بعد جس بات پر آپ کی رائے قرار پائے وہ کیجئے ۔اہل مشورہ کی رائے کا اتباع ضروری نہیں ۔(التبلیغ وعظ احکام المال:ص ۱۱۴؍ج۱۵)مشورہ کا مقصد مشورہ کا حکم محض اس لئے ہے کہ اس کی برکت سے حق واضح ہوجاتا ہے خواہ مشورہ دینے والوں کی رایوں میں سے کسی ایک کا حق ہونا واضح ہوجائے ۔ یا سب رایوں کے سننے سے کوئی صورت ذہن میں آجائے جو حق پر ہو ۔