دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
سے مسائل سن کر عالم ہوگیا ہو۔ اس کو بھی تبلیغ عام کی اجازت ہے ۔بشرطیکہ کسی بڑے نے اس کام کو اس کے لئے معین کیا ہو ۔چنانچہ صحابہ ؓ نے کہاں پڑھا تھا وہ بھی تو سن کر تبلیغ کرتے تھے ۔مگر ہر شخص خود نہ سمجھے کہ میں اس کے قابل ہوں جب تک کوئی کامل نہ کہہ دے کہ تم قابل ہو ۔ (آداب التبلیغ:ص ۱۰۶)اہل علم کے کام کرنے کی ترتیب تعلیم کے چند افراد ہیں : ان کوعرض کرتا ہوں اور وہ استقراء چار ہیں ۔وعظ، تدریس، امر بالمعروف بخطاب خاص، تصنیف، علماء کو ان چاروں شعبوں کو اختیارکرنا چاہئے ۔اس طرح کہ طلبہ کے سامنے تو مدرس بن کر بیٹھیں ۔اور عوام کے سامنے واعظ ہوں ۔اور خاص خاص مواقع میں امر بالمعروف کریں ۔اور خاص مواقع سے مراد یہ ہے کہ جہاں اپنا اثر ہو وہاں خطاب خاص سے نصیحت کریں ۔ کیوں کہ ہر جگہ امر بالمعروف مفید نہیں ہوتا ۔ اور بعض دفعہ عام لوگوں کو امر بالمعروف (خطابِ خاص کے ساتھ) کرنے کی وجہ سے مخالفت بڑھ جاتی ہے جس کا تحمل ہر ایک شخص سے نہیں ہوتا ۔ اور اگر کسی سے تحمل ہوسکے تو سبحان اللہ وہ امر بالمعروف کریں … اور اگر تحمل (برداشت) کی طاقت نہ ہوتو خطاب خاص نہ کریں بلکہ صرف خطاب عام پر اکتفاء کریں ۔ تین کام تویہ ہیں ۔چوتھا کام تصنیف کا ہے علماء کو ضرورت کے موقع پر تصنیف بھی کرنا چاہئے ۔(العبد الربانی ملحقہ حقوق وفرائض:ص ۱۱۴) درس وتدریس اور وعظ میں وعظ زیادہ مفید معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کا نفع عام ہوتا ہے۔ اور جس بات کی ضرورت دیکھی جائے وہی بات بیان کی جاسکتی ہے لیکن وعظ گوئی بڑی محنت کا کام ہے ۔ضرورت دونوں کی ہے ۔ مناسب یہ ہے کہ مستقل درس کا شغل رہے۔ اور کبھی کبھی وعظ بھی ہوا کرے ۔ (حسن العزیز:ص ۷۲؍ج۴)